ایسے وقت میں جب اسرائیل کی جانب سے امن کارکنوں کے بحری قافلے ’ فریڈم فلوٹیلا ‘ پر حملے میں متعدد افراد کی ہلاکتوں پر دنیا بھر میں بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، امریکہ کے صدر کے مسلم دنیا سے خطاب کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ریڈیو آپ کی دنیا نے اس موقع پر ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں پاکستان، سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ سے ماہرین نے شرکت کی۔ پاکستان سے سابق وفاقی وزیر اور امریکہ میں سابق سفیر سیدہ عابدہ حسین، ممتاز تجزیہ کار حسن عسکری رضوی، امریکہ سے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر زاہد بخاری، امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ وینڈافلبب براون، اخبار واشنگٹن پوسٹ کی سابق مدیرہ باربرا سلیون، سعودی عرب سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار خالد ال معیینہ اور برطانیہ سے پاکستانی ماہرقانون اور بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار عائشہ اعجاز نے پروگرام میں اظہار خیال کیا۔
سیدہ عابدہ حسین کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی کا تنازعہ وسیع تر معنوں میں امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان عدم اعتماد کا سبب خیال کیا جاتا ہے اور صدر اوباما نے اس معاملے پر اسرائیل کودوٹوک الفاظ میں متنازعہ علاقے میں آبادکاری کے اس کے توسیع پسندانہ منصوبوں سے روکا ہے اور یہ گزشتہ سال کی دوران دیکھی جانے والی ایک بڑی تبدیلی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ پاکستان کے لوگ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو دو افراد کے درمیان تعلقات کے پیمانے سے جانچنا چاہتے ہیں جو کہ درست سوچ نہیں ہے۔ عابدہ حسین نے کہا کہ ماضی میں بعض موقعوں پر امریکی حکمت عملی سے عام پاکستانی کا اعتماد امریکہ پرکچھ زیادہ نہیں رہا تاہم لوگوں کو چاہئے کہ دہ ان اقدامات کو بھی دیکھیں جو امریکہ نے پاکستان اورعوام کی بہتری کے لیے کیے ہیں۔
عرب صحافی خالد ال معینہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عرب دنیا نے صدر براک اوباما کے قاہرہ میں خطاب کو خوش آئند قرار دیا تھا لیکن اس کے بعد اگر مشرق وسطی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کن پیش رفت نہیں ہوئی تو اس میں باقی فریقوں کے علاوہ خود فلسطینی دھڑوں کے اندرونی اختلافات کورد نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کا جوہری پروگرام ملک پیداواری ضروریات کے لیے ہو سکتا ہے لیکن قیادت کی جانب سے بیانات اور شدید ردعمل درست نہیں ہے۔
عائشہ اعجاز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو دنیا کے لیے تشویش کا سبب بننے والے بیانات سے گریز کرنا چاہئے تاہم انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مختلف ممالک کے لیے دوہرا معیار ترک کر دے ۔ ان کا کہنا تھا کہ فلوٹیلا فریڈم پر اسرائیلی حملے کے بعد واشنگٹن نے کچھ زیادہ سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
اس حوالے سے وینڈا فلبب براون کا کہنا تھا کہ امریکہ کا ردعمل حقیقت پسندانہ تھا۔ اس نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور جب تک واقعے کی تفصیلی رپورٹ نہیں آجاتی اس پر کسی سخت ردعمل کا اظہار نامناسب ہوگا۔ مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے ان کا کہناتھا کہ عراق اورافغانستان میں امریکہ مقامی قیادت کو ملک کا انتظام سونپ رہا ہے، ادارے مضبوط کیے جار ہے اور پاکستان جیسے اسلامی ملک کی قیادت کے ساتھ امریکہ کے نہ صرف قریبی رابطے اس دوران استوار ہوئے ہیں بلکہ سویلینز کے لیے خطیر امداد بھی دی گئی ہے۔
باربرا سلیون کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے بہت سے مسائل اپنے پیش رووں سے ورثے میں ملے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ مشرق وسطی کا تنازعہ جو حالیہ فریڈیم فلوٹیلا اٹیک کے بعد مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ صدراوباما نے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی اچھی کاوشیں کی ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اوباما انتظامیہ موجودہ کے مشکل چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کو اپنے تعلقات بہتر کرنے اور بداعتمادی کو ختم کرنے میں وقت لگے گا لیکن قاہرہ میں خطاب ایک اچھا آغاز تھا۔ اب وقت ہے کہ دونوں جانب سے اقدامات کیے جائیں۔
عرب صحافی خالد ال معینہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عرب دنیا نےصدر براک اوباما کے قاہرہ میں خطاب کو خوش آئند قرار دیا تھا لیکن اس کے بعد اگر مشرق وسطی کےحوالے سے کوئی فیصلہ کن پیش رفت نہیں ہوئی تو اس میں باقی فریقوں کے علاوہ خود فلسطینی دھڑوں کے اندرونی اختلافات کورد نہیں کیا جا سکتا
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1