قاہرہ کی عمارتوں پر اشتہاری بینر آویزاں ہیں جن پر لکھا ہے: ’’درست اقدام کریں، ہاں میں ووٹ ڈالیں‘‘۔ اس پر کوئی قابل ذکر عام مخالفت نظر نہیں آتی۔
اس اشتہار میں حکومت کے حامیوں نے آئینی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے جس سے مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کو یہ اجازت مل جائے گی کہ وہ 2030ء تک عہدے پر براجمان رہیں۔
ملک سے باہر رہنے والے مصری شہری جمعے کے روز سے رائے شماری میں حصہ لینا شروع کریں گے، جب کہ قومی سطح پر ووٹنگ کا آغاز ہفتے کے روز سے ہوگا، جس سے ایک ہفتہ قبل پارلیمان نے اس اقدام کی منظوری دی ہے۔
منظوری کی صورت میں صدارتی اختیارات کو وسعت ملے گی جب کہ معاشرے کی نچلی سطح پر فوجی موجودگی شامل ہوگی۔ چار سالہ صدارتی میعاد بڑھ کر چھ برس ہو جائے گی اور سیسی کو اجازت ہو گی کہ وہ 2024ء میں تیسری بار صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں۔
ریفرنڈم کے حامیوں نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اسے قومی فریضہ قرار دیا ہے۔
اندرون شہر حجام کی دکان پر محمود ابتال نے کہا کہ اُن کے لیے صدر کی حمایت میں ووٹ دینا ایک فخر کی بات ہوگی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ’’اگر مصر کو میری ضرورت ہے تو میں آگے بڑھ کر پوری کروں گا‘‘۔
لیکن، چند تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ووٹ محض اقتدار پر قبضہ جمانے کا معاملہ ہے، ایسے ملک میں جہاں سیاسی تنوع تقریباً مکمل طور پر تحلیل ہو چکا ہے۔
حشام قاسم مصر کے نامور ناشر اور تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک غیر مستحکم صورت حال ہے، جہاں عوام ناراض اور مایوس ہے‘‘۔ تاہم، منظم مخالفت تقریباً معدوم ہے، جہاں کی سرکردہ عوامی شخصیات، کاروباری لوگ اور ذرائع ابلاغ کے بڑے ادارے موجودہ حکومت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
بقول اُن کے، ’’ملک میں کوئی حقیقی سیاسی قیادت نہیں ہے۔ کوئی منڈیلا نہیں ہے‘‘۔
سفر پیچھے کی طرف گامزن؟
ترامیم کے ناقدین کہتے ہیں کہ ووٹنگ حسنی مبارک کے تین عشروں پر محیط مطلق العنان دور کی جانب جانے کا موجب بنے گی۔
سال 2011ء میں ملک بھر میں ہونے والی بغاوت کے دوران فوج نے مبارک کی حکمرانی ختم کی تھی، جن کے بعد مرسی کو چلتا کیا گیا، جو جمہوری طور پر منتخب ہوئے تھے، لیکن ملک مشتعل تھا۔ سیسی نے فوجی بغاوت کی قیادت کی، مرسی کو برطرف کیا، جنھیں 2014ء میں منتخب کیا گیا تھا۔
قاسم کے مطابق، سیسی 2018ء میں عہدہ صدارت پر فائز ہوئے، لیکن ان کے مد مقابل کسی حقیقی اپوزیشن نے شرکت نہیں کی۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’بنیادی طور پر ناقدین کو گرفتار کرکے وہ اپنے اقتدار کو طول بخشتے رہے ہیں‘‘۔