مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ ان کا ملک اور اسرائیل مصر کے علاقے جزیرہ نما سینا میں مسلم شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں ایک دوسرے سے قریبی تعاون کر رہے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی بی ایس' کو حال ہی میں دیے جانے والے ایک انٹرویو میں مصر کے صدرنے کہا ہے کہ اسرائیل سینا کے علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں مصری سکیورٹی اداروں کی مدد کر رہا ہے۔
'سی بی ایس' مکمل انٹرویو اتوار کو اپنے پروگرام '60 منٹس' میں نشر کرے گا جس سے قبل اس نے اس انٹرویو کے بعض حصے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے ہیں۔
'سی بی ایس' کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انٹرویو کی ریکارڈنگ کے بعد مصر کی حکومت نے اس سے درخواست کی تھی کہ صدر السیسی کا یہ انٹرویو نشر نہ کیا جائے جسے چینل کی انتظامیہ نے مسترد کردیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ مصر کے صدر نے خود اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی امور پر قریبی تعاون کا اعتراف کیا ہے اور شاید اسی وجہ سے ان کی حکومت اس انٹرویو کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں اسرائیل کے ساتھ قریبی تعاون کا اعتراف مصر کی داخلی سیاست میں السیسی کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
مصر اورا سرائیل کے درمیان اب تک چار جنگیں ہوچکی ہیں۔ گو کہ دونوں ملکوں نے 1979ء میں امن معاہدے پر دستخط کردیے تھے لیکن اب بھی مصری عوام کی اکثریت اسرائیل کو پسند نہیں کرتی اور اس کے ساتھ قریبی سیاسی اور سفارتی تعلقات کی مخالف ہے۔
'سی بی ایس' کے مطابق انٹرویو کے دوران جب السیسی سے یہ پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل اور مصر کے درمیان اس حد تک تعاون موجود ہے جتنا تاریخ میں کبھی نہیں رہا، تو انہوں نے اس کا اثبات میں جواب دیا۔
جزیرہ نما سینا میں حالیہ برسوں کے دوران داعش سمیت کئی شدت پسند تنظیموں نے اپنے قدم جمائے ہیں جس کے حملوں میں اب تک سیکڑوں مصری سکیورٹی اہلکار اور عام شہری مارے جاچکے ہیں۔
صدر السیسی کی حکومت نے گزشتہ سال سینائی کو شدت پسندوں سے پاک کرنےکے لیے ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
اس آپریشن کے آغاز کے بعد گزشتہ سال فروری میں امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر السیسی نے اسرائیل کو مصر کے صوبے شمالی سینا میں شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی کی اجازت دیدی ہے۔
'نیویارک ٹائمز' کے مطابق اس اجازت کے ملنے کے بعد اسرائیل فوج کے بغیر کسی نشان والے 100 سے زائد ڈرون، ہیلی کاپٹر اور جنگی طیارے علاقے میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔
مصر کی فوج نے نیویارک ٹائمز کی اس خبر کی تردید کرتے ہوئے مقامی ذرائع ابلاغ کو خبردار کیا تھا کہ وہ "غیر تصدیق شدہ" معلومات نشر کرنے سے گریز کریں۔