رسائی کے لنکس

افغان طالبان ملک میں مشمولہ حکومت کیوں نہیں چاہتے؟


یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے ایک بار پھر مشکلات سے دوچار اس ملک میں ایک مشمولہ حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ (فائل فوٹو)
یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے ایک بار پھر مشکلات سے دوچار اس ملک میں ایک مشمولہ حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ (فائل فوٹو)

یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے ایک بار پھر مشکلات سے دوچار اس ملک میں ایک مشمولہ حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’سٹریٹجک‘ پہلووں کی بنیاد پر اس بات کے امکانات کم ہی ہیں کہ طالبان اس طرح کے بین الاقوامی مطالبات کو کسی خاطر میں لے آئیں۔

ٹامس نکلسن نے کہا کہ خطے سمیت دنیا کے بہت سے ممالک سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جہاں، گزشتہ سال سے طالبان ملک کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں، ابھی تک ایسی مشمولہ حکومت یعنی تمام فریقوں کی نمائندگی رکھنے والی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے۔

انہوں نے یورپی یونین کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کو بتایا کہ دنیا کابل میں کوئی جامع حکومت دیکھنا چا ہتی ہیں۔

خیال رہے کہ امریکہ ، یورپ اور خطے کے کئی ملک کابل میں مشترکہ حکومت کی تشکیل پر زور دیتے آرہے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق طالبان اس خیال کو موجودہ حالات میں ملحوظ خاطر نہیں لائیں گے۔

واشنگٹن میں قائم "دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ " میں پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کےڈائریکٹر ڈاکٹر وائن بام وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہتے ہیں کہ اگرچہ ماضی میں امریکہ اور بین الاقوامی برادری نے اس اہم پہلوپر زور دیا تھا اور مذاکرات کا حصہ بھی بنایا تھا، لیکن طالبان نےکبھی بھی اس معاملے پر سنجیدگی نہیں دکھائی۔

جب ان سے جامع حکومت پر نکلسن کے تازہ ترین بیان پر تبصرے کے لیے کہا گیا تو وائن بام نے کہا: "طالبان شروع ہی سے افغانستان میں اپنی طرز کی اسلامی حکومت بنانا چاہتے تھے۔ وہ حکومت میں دوسرے افغان گروپوں کی شمولیت کے نظریہ کو نہ تو پسند کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اس پر موجودہ تناظر میں کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں کیونکہ ان پر ایسا کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے۔"

اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ طالبان تمام اختیارات اور اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ ان کے جنگجو مشمولہ نوعیت کی حکومت کی یہ کہہ کر مخالفت کریں گے کیا انہوں نے اتنے سال حکومت کے اختیارات کو دوسرے گروپوں کے ساتھ تقسیم کرنے کے لیے جنگ لڑی تھی۔

افغانستان: کیا لڑکیاں دوبارہ تعلیم حاصل کر پائیں گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:58 0:00

یادر رہے کہ افغانستان کی تاجک، ہزارہ اور ازبک برادریاں ایک مشرکہ حکومت کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

دریں اثنا افغانستان میں ایک ایسے وقت میں انسانی المیہ جاری ہے جب موسم سرما کا آغاز ہے اور خوراک کے عالمی ادارے "ورلڈ فوڈ پروگرام" نے اپنے تازہ ترین جائزے میں کہا ہے کہ زیادہ تر افغانوں کے لیے زندگی ناقابل برداشت حد تک کٹھن ہے۔ ادارے کے مطابق خاص طور پر بچیوں اور خواتین کو افغانستان میں متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ اس نے ایک کروڑ افغان لوگوں کو ذریعہ معاش جیسے شعبوں میں امداد مہیا کی ہے۔

'کوئی کہتا ہے دکانیں بند کرو، کوئی کہتا ہے کھولو'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:20 0:00

عالمی اداروں کے مطابق شدید سردی کے موسم میں افغان خاندانوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے وقت بہت کم ہے کیونکہ 79 فیصد عوام کے پاس گھر وں کو گرم رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے اور 56 فیصد کے پاس بچوں کے لیے سردیوں کے کپڑے نہیں ہیں۔

ٹامس نکلسن نے بھی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کو بتایا کہ افغانستان میں شدید جاڑے کا موسم ہے لیکن ملک کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کےلیے فنڈز میں اس وقت پچاس فیصد کمی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ یورپی ملک افغانستان میں امدادی مشنز میں اضافہ کرنے یا ملک میں اپنی موجودگی تشکیل دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG