یورپی یونین نے یوکرین میں تشدد کرنے والے باشندوں پر مختلف پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دی ہے۔
اٹلی کی وزیر خارجہ ایما بونینو کا کہنا ہے ایسے افراد "جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں"، ان
کے اثاثے منجمد کیے جائیں گے اور یورپ میں ان پر سفری پابندیاں عائد ہوں گی۔
تاہم ان افراد کے نام نہیں بتائے گئے تاہم یوریی یونین کے ایک سفارتکار کے مطابق اس فہرست پر جمعہ سے کام شروع ہوگا۔ ان کے بقول ایسے افراد جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، تشدد یا طاقت کا بے جا استعمال کر رہے ہیں، شامل ہوں گے۔
بونینو کا مزید کہنا تھا کہ یورپی اقوام نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ تشدد کے شکار، زخمی اور بے گھر ہونے والے افراد کو طبی امداد اور ویزا بھی دیا جائے گا۔
قبل ازیں فرانس، جرمنی اور پولینڈ کے وزرائے خارجہ نے یوکرین کے صدر وکٹر یانوکووچ اور حزب مخالف کے اہم لیڈران سے ملاقاتیں کیں۔
ادھر امریکہ بھی یوکرین میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کے تناظر میں اس ملک پر تعزیرات عائد کرنے کا سوچ رہا ہے۔
جمعرات کو وائٹ ہائوس نے "یوکرین کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے اپنے عوام پر خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کے مناظر" پر برہمی کا اظہار کیا۔
ایک بیان میں صدریانوکووچ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پرامن مظاہرے کے حق کا احترام کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کو فوری طور پر وہاں سے ہٹائیں۔ واشنگٹن نے مظاہرین کو بھی پرامن رہنے پر زور دیا۔
اس بات کے بھی قوی اشارے ملے ہیں اوباما انتظامیہ مزید اقدامات کا اعلان کرے گی جن میں ممکنہ طور پر اقتصادی پابندی عائد کرنا بھی شامل ہو سکتی ہے جو صدر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے نافذ کریں گے۔
صدر اوباما نے یوکرین کی صورتحال پر جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخل سے بھی تبادلہ خیال کیا۔ ایک بیان کے مطابق دونوں اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ اشد ضروری ہے کہ امریکہ، جرمنی اور یورپی یونین قریبی رابطے میں رہیں اور یوکرین میں تشدد کے خاتمے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے اقدامات کی حمایت کریں۔
دریں اثناء تین روز کے دوران مظاہرین کی پولیس سے جھڑپوں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 70 تک پہنچ گئی ہے جب کہ پانچ سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یوکرین کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ جمعرات کو پولیس کے تین افسر بھی مارے گئے جب کہ پچاس سے زائد زخمی اہلکار اسپتالوں میں داخل ہیں جن میں سے 30 کو گولیاں لگنے سے زخم آئے۔ مزید برآں مظاہرین نے 67 پولیس اہلکاروں کو بھی یرغمال بنایا۔
اٹلی کی وزیر خارجہ ایما بونینو کا کہنا ہے ایسے افراد "جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں"، ان
کے اثاثے منجمد کیے جائیں گے اور یورپ میں ان پر سفری پابندیاں عائد ہوں گی۔
تاہم ان افراد کے نام نہیں بتائے گئے تاہم یوریی یونین کے ایک سفارتکار کے مطابق اس فہرست پر جمعہ سے کام شروع ہوگا۔ ان کے بقول ایسے افراد جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، تشدد یا طاقت کا بے جا استعمال کر رہے ہیں، شامل ہوں گے۔
بونینو کا مزید کہنا تھا کہ یورپی اقوام نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ تشدد کے شکار، زخمی اور بے گھر ہونے والے افراد کو طبی امداد اور ویزا بھی دیا جائے گا۔
قبل ازیں فرانس، جرمنی اور پولینڈ کے وزرائے خارجہ نے یوکرین کے صدر وکٹر یانوکووچ اور حزب مخالف کے اہم لیڈران سے ملاقاتیں کیں۔
ادھر امریکہ بھی یوکرین میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کے تناظر میں اس ملک پر تعزیرات عائد کرنے کا سوچ رہا ہے۔
جمعرات کو وائٹ ہائوس نے "یوکرین کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے اپنے عوام پر خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کے مناظر" پر برہمی کا اظہار کیا۔
ایک بیان میں صدریانوکووچ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پرامن مظاہرے کے حق کا احترام کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کو فوری طور پر وہاں سے ہٹائیں۔ واشنگٹن نے مظاہرین کو بھی پرامن رہنے پر زور دیا۔
اس بات کے بھی قوی اشارے ملے ہیں اوباما انتظامیہ مزید اقدامات کا اعلان کرے گی جن میں ممکنہ طور پر اقتصادی پابندی عائد کرنا بھی شامل ہو سکتی ہے جو صدر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے نافذ کریں گے۔
صدر اوباما نے یوکرین کی صورتحال پر جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخل سے بھی تبادلہ خیال کیا۔ ایک بیان کے مطابق دونوں اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ اشد ضروری ہے کہ امریکہ، جرمنی اور یورپی یونین قریبی رابطے میں رہیں اور یوکرین میں تشدد کے خاتمے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے اقدامات کی حمایت کریں۔
دریں اثناء تین روز کے دوران مظاہرین کی پولیس سے جھڑپوں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 70 تک پہنچ گئی ہے جب کہ پانچ سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یوکرین کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ جمعرات کو پولیس کے تین افسر بھی مارے گئے جب کہ پچاس سے زائد زخمی اہلکار اسپتالوں میں داخل ہیں جن میں سے 30 کو گولیاں لگنے سے زخم آئے۔ مزید برآں مظاہرین نے 67 پولیس اہلکاروں کو بھی یرغمال بنایا۔