اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ سے یورپی یونین کو ان بڑھتے ہوئے خدشات کا سامنا ہے کہ پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد یورپی ممالک کا رخ کر سکتی ہے۔
پناہ گزینوں کے امور سے متعلق یونان کے وزیر ڈیمڑیس کیریڈیس نے پیر کے روز اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے چوکس ہونے اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان مزید یکجہتی کی اپیل کی ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کیریڈیس نے کہا کہ " خطرہ تو ہمیشہ رہتا ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا پھیلاؤ بڑھتا ہے، اور خاص طور پر اگر یہ مصر جیسے پڑوسی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، جس کی آبادی بہت زیادہ ہے، تو چیزیں واقعتاً خطرناک ہو سکتی ہیں"۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں چوکس ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یورپی ہونے کے ناطے مزید قریب آنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی سرحدوں کا تحفظ بہتر بنانے، اسمگلروں کے مجرمانہ نیٹ ورکس کے خلاف لڑنے اوران پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی ضرورت ہے جو قانونی طور پر پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
سن 2015 میں یورپ کے نقل مکانی کے بحران کے دوران یورپی یونین کی حکومتوں نے 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی آمد کے مسئلے سے نمٹںے کی کوشش کی تھی جن میں اکثریت شام سے تعلق رکھنے والے مہاجروں کی تھی ، جو ترکی سے سرحد عبور کر کے یونان میں داخل ہوئے تھے۔ بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد نے سیکیورٹی اور فلاح و بہبود کے نیٹ ورکس پر دباؤ ڈالا اور انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے جذبات کو ابھارا۔
یورپی ملکوں کا بلاک، اب اگلے سال یورپی یونین کے انتخابات سے پہلے، اس مہینے غیرقانونی پناہ گزینوں کے معاملے پر ایک معاہدہ طے ہونے کے بعد، تارکین وطن سے متعلق اپنے قوانین پر نظر ثانی کے لیے اقدامات کر رہا ہے، جس کا مقصد ایک ایسے وقت میں غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے سے نمٹنا ہے، جب ان کی آمد غیر معمولی تعداد میں ہو رہی ہے۔
تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد پر قابو پانے کا مطالبہ اس مسئلے کا سامنا کرنے والےیونان سمیت یورپ کے جنوبی ممالک کر رہے ہیں۔
یونان کے پناہ گزینوں کے امور کے وزیر کیریڈیس نے جو تارکین وطن کی آمد محدود کرنے سے متعلق بات چیت کے لیے پیر کو انقرہ میں تھے، کہا کہ ہمیں نیا معاہدہ مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ترکیہ اور یورپی یونین کے درمیان 2016 میں تارکین وطن کی یلغار کو روکنے کا معاہدہ ہوا تھا۔
یونان کے وزیر کا کہنا تھا کہ یہ بہتر ہو گا کہ تارکین وطن کی آمد میں اچانک اضافے کی صورت میں دونوں ملکوں کے پاس اس بحران سے نمٹنے کا کوئی بندوبست موجود ہو۔
اسرائیل اور حماس کے تنازع سے منسلک خدشات کے پیش نظر کیریڈیس نے کہا کہ بیلجیئم اور فرانس میں ہونے والے مہلک حملوں کے بعد مزید پناہ گزینوں کی واپسی اور ملک بدری سے متعلق یورپی یونین کے مذاکرات میں یونان پیش پیش رہا ہے۔
انہوں نے پچھلے ہفتے فٹ بال کے دو شائقین کی تیونس کے ایک مسلح شخص کے ہاتھوں ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلح شخص پناہ کی اپنی درخواست مسترد ہونے کے بعد بیلجیئم میں غیر قانونی طور پر رہ رہا تھا۔یہ شخص 2011 میں اٹلی کے راستے یورپی یونین میں داخل ہوا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے لیے یہ صورت حال ناقابل قبول ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چاہے آپ کی درخواست منظور ہو یا مسترد ، آپ یورپ میں ہی رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان درخواستوں کی جانچ پڑتال کے لیے ہم بڑی رقوم اور وسائل صرف کرتے ہیں، مگر آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سب مذاق بن جاتا ہے۔
یونان کے وزیر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک یا بیلجیئم اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، پورے یورپ کو مل کر اس کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے اور پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر آمد کے مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔
(اس تحریر کا کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)
فورم