سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کو متفقہ طور پر کالعدم قرار دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے پیر کو اس کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو سنادیا ہے جس میں فوجی عدالتوں میں جاری سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرلی گئی ہیں اور تمام گرفتار افراد کے ٹرائل سویلین عدالت میں کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت نے چھ صفحات پر مبنی اپنے مختصر فیصلے میں ہدایت کی ہے کہ عدالت میں جن 103 افراد کی فہرست پیش کی گئی ہے ان کے خلاف فوجی عدالت میں جاری ٹرائلز سویلین عدالتوں میں کیے جائیں گے۔ فیصلے میں نو اور 10مئی کے واقعات کے ملزمان پر درج ہونے والے مقدمات واپس معمول کی فوج داری عدالتوں کو بھجوانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
رواں برس نو مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد مختلف شہروں میں احتجاج اور فوجی عمارتوں پر حملوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف اس وقت کی حکومت نے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانےکا فیصلہ کیا تھا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان، ماہرِ قانون بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی، جنید رزاق، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، حفیظ اللہ نیازی، لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم اور نعیم اللہ قریشی نے سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بننے والے لارجر بینچ نے تین اگست تک درخواستوں کی سماعت کی تھی۔
ستمبر 2023 میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد پیر کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک پر مشتمل اسی بینچ نے فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت میں اٹارنی جنرل عثمان منصور، دراخوست گزاروں کے وکلا لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکلا بھی شامل تھے۔
سماعت سے قبل اتوار کو ملٹری کورٹ میں مقدمات کا سامنا کرنے والے نو ملزمان نے درخواست دائر کی تھی جس میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کو اپنی کارروائی جلد مکمل کرنے کی ہدایت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں پر اعتماد کا اظہار بھی کیا تھا تاہم عدالت نے ان درخواستوں کے ساتھ بیانِ حلفی منسلک نہ ہونے کی بنا پر انہیں خارج کردیا۔
مختصر فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ کی دفعہ 2 کی ذیلی شقیں ایک اور دو اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 59 فور کو بینچ میں شامل چار ججز نے کالعدم قرار دیا ہے جب کہ جسٹس یحیی آفریدی نے اس پر اپنی رائے محفوظ کرلی ہے جس کی تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ آرمی ایکٹ کی اس شق کا تعلق ایسے افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی سے متعلق ہے جو فوج کے کسی اہل کار کو اس کی فرائض کی ادائیگی سے روکنے کے متعلق ہے۔
سینیئر قانون داں اور فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائلز کے خلاف درخواست گزار بیرسٹر اعتزاز احسن نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس سے آئینِ پاکستان کی سربلندی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سویلین کے خلاف آئین اور قانون کے تحت مقدمہ چلے گا۔ سپریم کورٹ نے قانون میں جو شق ایوب خان کے دورِ حکومت میں شامل کی گئی تھی آج اسے کالعدم قرار دے دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سویلین کا ٹرائل کسی صورت ملٹری عدالت میں نہیں ہوسکتا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 2015 سے 2019 تک جن افراد کے ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلے انہیں آئین کی 21 ویں اور 23 ویں ترمیم کی وجہ سے آئینی تحفظ حاصل ہے۔ آئین کے تحت انہیں چار سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتوں میں کیسز چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس وقت دہشت گردوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے تھے۔
آج کی سماعت میں کیا ہوا؟
پیر کو سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل حتمی دلائل دیں، پھر دیکھتے ہیں کہ عدالتی کارروائی کو آگے کیسے چلانا ہے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت میں یقین دہانی کروانے کے باوجود فوجی عدالتوں نے سویلینز کا ٹرائل شروع کر دیا ہے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں معلوم ہے،ہم پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ "میں گزشتہ سماعت کا خلاصہ دوں گا۔ میں بتاؤں گا کہ موجودہ ٹرائل کے لیے کیوں آئینی ترمیم ضروری نہیں تھی۔ میں آرٹیکل 175 پر بھی بات کروں گا۔"
انہوں نے کہا کہ21 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے کی روشنی میں بھی دلائل دوں گا۔ اس سوال کا جواب بھی دوں گا کہ کیا ملزم کا اسٹیٹس فرد جرم کے بعد ملتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نو مئی کے ملزمان کا ملٹری عدالتوں میں ٹرائل سول عدالتوں کی طرز پر ہی کیا جائے گا۔ شہادتیں ریکارڈ کی جائیں گی اور فیصلے میں تفصیلی وجوہات بھی لکھی جائیں گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2015 میں ملٹری کورٹس میں ملزمان کا اسٹیٹس کیا تھا۔ کیا 2015 کے ملزمان ہمارے شہری تھے یا کالعدم تنظیموں کے ممبران تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان ملزمان میں شہری بھی تھے اور کالعدم تنظیموں کے ممبران بھی۔ ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملہ بھی ملٹری عدالتوں میں جا سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دہشت گردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کے لیے نہیں؟ میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے عدالتی استفسار پر کہا کہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون پڑھیں تو واضح ہوتا ہے یہ تو فورسز کے اندر کے لیے ہوتا ہے۔ آپ اس کا سویلین سے تعلق کیسے دکھائیں گے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے۔ کسی کو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنا بھی اس قانون میں جرم بن جاتا ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لیکن قانون مسلح کے اندر موجود افراد کی بھی بات کرتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بات فورسز میں ڈسپلن کی حد تک ہو تو یہ قانون صرف مسلح افواج کے اندر کی بات کرتا ہے۔ جب ڈیوٹی سے روکا جائے تو پھر دیگر افراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں۔
بینچ میں شامل جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کی تشریح مان لی جائے تو آپ کسی پر بھی یہ قانون لاگو کردیں گے۔ ایسی صورت میں بنیادی حقوق کا کیا ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ وقتی طور پر آرمڈ فورسز کے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی بات کرتا ہے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ معاملہ صرف سروس سے متعلق ہے۔ اس بارے میں اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ آرمڈ فورسز ممبران کو ڈیوٹی سے روکنے والے عام شہری بھی ہو سکتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین کہتا ہے بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔ آئین کا آرٹیکل 8 کیا کہتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 8 کے مطابق بنیادی حقوق کے برخلاف قانون سازی برقرار نہیں رہ سکتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ افواج میں نظم و ضبط کے قیام کے لیے ہے۔ افواج کے نظم و ضبط کے لیے موجود قانون کا اطلاق سویلینز پر کیسے ہو سکتا ہے؟ 21ویں آئینی ترمیم کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ افواج کا نظم و ضبط اندرونی جب کہ افواج کے فرائض کے انجام میں رکاوٹ ڈالنا بیرونی معاملہ ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ قانون انہیں کہتا ہے کہ آپ فرائض ادا نہ کر سکیں تو آئین کے بنیادی حقوق کا حصول آپ پر نہیں لگے گا۔ آپ اس بات کو دوسری طرف لے کر جا رہے ہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں جو انہیں ڈسٹرب کرے ان کے لیے قانون ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے متعلق کی اصطلاح بھی موجود ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشت گرد؟
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ملزمان میں ملکی و غیر ملکی دونوں ہی شامل تھے۔ سال 2015 میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشت گردوں کے سہولت کار بھی شامل تھے۔ فوجی عدالتوں میں ہر ایسے شخص کا ٹرائل ہوسکتا جو اس کے زمرے میں آئے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل جن قوانین کا حوالہ دے رہے ہیں وہ فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہیں۔
سماعت میں بینچ کی رکن جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی پارلیمان کی مرضی پر چھوڑی جا سکتی ہے؟ آئین بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہر قیمت پر یقینی بناتا ہے۔ عام شہریوں پر آرمی کے ڈسپلن اور بنیادی حقوق معطلی کے قوانین کیسے لاگو ہو سکتے ہیں؟
اپنے ریمارکس میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہو جائے گا۔ کیا آئین کی یہ تشریح کریں کہ جب دل چاہے بنیادی حقوق معطل کر دیے جائیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو شخص مسلح افواج میں فرائض انجام دے رہا ہو اس پر ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔ جو ڈیوٹی پر موجود نہ ہو مگر کسی حملے سے متاثر ہو جائے تو اس کا معاملہ الگ ہے۔ بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے والے کسی آرمڈ فورسز کے ممبر پر بھی یہ ایکٹ لاگو ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عام شہریوں پر کب آرمی ایکٹ لگے گا اس کا ٹیسٹ موجود ہے۔ کسی جرم میں ملزمان کا تعلق آرمڈ فورسز سے ثابت ہو تو ایکٹ لاگو ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے فوجی عدالتوں میں کارروائی سے متعلق 21 ویں آئینی ترمیم کا جائزہ لیا اور قرار دیا کہ فئیر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو گا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ سارے مسلح افواج کے کیسز پڑھ رہے ہیں۔ ان کیسز کا موجودہ معاملے سے سے کیا تعلق ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارش یہ ہے کہ ڈائریکٹ تعلق والا معاملہ موجود ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کوٹ مارشل کو آئین تسلیم کرتا ہے؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے تسلیم کر رکھا ہے کہ ملٹری کورٹس آرمی ایکٹ کے تحت قائم عدالتیں ہیں۔ ملٹری کورٹس آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالتیں نہیں۔ لیکن 21 ویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت ان معاملات کا جائزہ لے چکی ہے۔ نو مئی والے ملزمان پر تو قانون شہادت کا اطلاق بھی کیا جا رہا ہے۔ ان ملزمان کا فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو رہا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزارش ہے کہ عدالت سیکشن 2 ون ڈی کو وسیع تناظر میں دیکھے۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل کرنے کے بعد تحریری دلائل جمع کرانے کی استدعا کی جو عدالت نے منظور کرلی۔ اٹارنی جنرل عثمان منظور نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میں نے وزارت دفاع اور داخلہ کی نمائندگی کر دی ہے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جس پر مختصر فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔
فورم