اسلام آباد سے کراچی آنے والی فلائٹ کی بورڈنگ شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ لاؤنج میں مجھ سے کچھ فاصلے پر تین سے چار سالہ ایک بچی گھوم پھر رہی تھی کہ اچانک اس کی والدہ نے اسے اشارے سے بلایا اور پرس سے ایک ہیئر برش نکال کر اس کے بال بنانے لگی۔
نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ بچی نے یک دم اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ ماں نے بہلانے کی کافی کوشش کی البتہ ناکام رہی۔ اس دوران سامنے سے ایک آدمی پر سکون انداز سے چلتا ہوا آیا اور جھک کر بچی کو گود میں اٹھا لیا۔
اس آدمی کی گود میں آتے ہی بچی نہ صرف خاموش ہوگئی بلکہ اس شخص سے ایسے لپٹی رہی جیسے بہت زمانوں کے بعد اسے یہ موقع میسر آیا ہو۔ وہ شخص اس بچی کو گود میں لے کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی بیٹھی خاتون نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں اور بگاڑیں اپنی بیٹی کو‘‘ جب کہ بچی اس دوران اپنے باپ کی گود میں پرسکون بیٹھی رہی۔
اس پورے منظر میں بچی کے باپ نے کوئی بات نہیں کی، نہ ہی پوچھا کہ وہ کیوں رو رہی تھی؟ البتہ اس ’جادو کی جھپی‘ نے اس بچی کی آنکھوں میں بھرے آنسوؤں کو آنکھوں سے چھلکنے نہ دیا۔
جب بھی میں سفر پر نکلتی ہوں تو میرے لیے والدین کا بچوں کے ساتھ برتاؤ دیکھنا سب سے پسندیدہ عمل ہے۔ یہ بات حیران کن بھی ہے کہ بچے اپنے والد کے ساتھ زیادہ خوش اور دوستانہ انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔
شاید ہم سےپہل والی جنریشن کے لیے والد سب کچھ ہو تا تھا لیکن دوست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے والد کی خوبیاں، قربانیاں اور احساس کرنے کی خوبی یا تو ان کے جانے کے بعد سمجھ آتی ہے یا تب جب ہم خود والدین بن جاتے ہیں۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ والد کو بیٹیاں زیادہ عزیز اور لاڈلی ہوتی ہیں جب کہ بیٹے کے ساتھ ان کا رویہ قدرے سخت ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر گھرانوں میں ماں اپنے بچوں کو ڈرانے کے لیے جو جملے ادا کرتی ہیں، وہ شاید ہر گھر کی کہانی ہے۔ "شام کو تمہارے ابو آتے ہیں تو انہیں بتاتی ہوں تمہاری شرارتیں" ، " تم ایسے ٹھیک نہیں ہوگے، جب تک باپ سے تمہاری پٹائی نہ لگ جائے‘"، "ٹھہرو ذرا تمہیں تو تمہارا باپ ہی ٹھیک کرے گا"، "اگر امتحان میں اچھے نمبر نہ آئے تو تمہارے ابو خبر لیں گے‘"، "مجھ سے نہیں جاکر بابا سے پوچھو اگر وہ اجازت دیں تو چلے جانا"۔ یہ وہ چند جملے ہیں جنہیں سنتے سنتے بچے بڑے ہوجاتے ہیں۔
ا ن کے نزدیک ان کا باپ ایک سخت گیر، پابندیاں لگانے والا انسان بن جاتا ہے۔ یوں باپ سے محتاط رہنے اور ڈر کے سبب یہ رشتہ فاصلے کی ایک فصیل کھڑی کر دیتا ہے جہاں آج بھی بچہ اپنے باپ کو یہ نہیں کہہ پاتا کہ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں۔
ایسے ہی کچھ بیٹوں سے جو اب خود والد بن چکے ہیں، وائس آف امریکہ نے ’فادرز ڈے‘ کے موقع پر اپنے والد کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کیا ہے۔
"میرے والد نے کبھی مجھے گود میں نہیں اٹھایا، نہ ہی گلے لگایا۔ یہ بات مجھے آج بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ میرا ان سے تعلق بہت واجبی سا تھا۔ وہ کاروبار کے لیے صبح جاتے تھے، شام ڈھلے آتے تھے۔ کوئی غلطی ہو جاتی تو وہ بہت مارتے تھے۔ اسی وجہ سے میرے ان کے درمیان ہمیشہ فاصلہ رہا۔" یہ احساسات ہیں لحاظ علی کے جو ایک صحافی ہیں۔
لحاظ علی کی عمر اس وقت 46 سال سے زائد ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا اب بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے والد کے پاؤں دبائیں، ان کے ناخن کاٹیں، ان کا سر دبائیں لیکن ان کے والد اب بھی انہیں قریب نہیں آنے دیتے۔ اس فاصلے کی وجہ سے وہ ان کی اس طرح خدمت نہیں کر پا رہے جس طرح وہ چاہتے ہیں۔
42 برس کے زاہد اقبال تین بیٹوں کے والد ہیں۔ وہ کہتے ہیں "میں جب پہلی بار باپ بنا اور میں نے اپنے بیٹے کو گود میں لیا تو اس وقت مجھے شدت سے احساس ہوا کہ آج میرے والد یہ دیکھتے تو کتنے خوش ہوتے۔ جب میں پیدا ہواتھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا ہوگا جو میں آج باپ بن کر محسوس کر رہا ہوں البتہ وہ آج میرے ساتھ نہیں ہیں۔ یہ خلش محسوس ہوتی ہے کہ اگر وہ آج حیات ہوتے تو بہت سی کمی جو زندگی میں رہ گئی وہ نہ رہتی۔"
وقار کی عمر 45 برس ہے اور وہ دو بچوں کے والد ہیں۔ ان کا کہنا تھا "مجھے یاد ہے کہ میں کوئی 14 یا 15 برس کا تھا، عید کی نماز کے بعد جب سب گلے ملنے لگے تو میں عید گاہ سے فوراً نکل گیا۔ مجھے یہ خوف تھا کہ پتا نہیں اتنے لوگوں کے سامنے میرے ابو مجھے گلے لگائیں گے یا نہیں۔ جب ابو گھر آئے تو میرا دل تھا کہ اب میں گلے مل لوں گا لیکن ایسا نہ کرسکا۔ شام تک مہمان آتے رہے، ابو گلے ملتے رہے اور میں دل میں کڑھتا رہا کہ سارا غصہ میرے لیے ہوتا ہے۔ میں آج بھی ان کے گلے لگنا چاہتا ہوں۔"
"میرے والد کی شخصیت گھر میں اور باہر الگ الگ تھی۔ وہ گھر سے باہر بہت دوستانہ، ملنسار انسان تھے لیکن گھر میں بہت محتاط طبیعت تھی۔ بہت زیادہ سگریٹ نوشی کرتے تھے اور مجھے ان کی یہ عادتیں پسند نہیں رہیں۔ جہاں تک ان سے تعلق کی بات ہے تو آج لگتا ہے کہ وہ تعلق ضرورتوں کا ہی تھا۔" یہ کہنا ہے اویس احمد کا جو پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں۔
زاہد اقبال کے مطابق وہ ابھی میٹرک میں تھے جب ان کے والد وفات پا گئے لیکن ان کے مزاج کی سختی انہیں آج بھی یاد ہے۔ اس سختی کی وجہ سے ہی وہ اپنے مسائل اور خواہشات اپنی والدہ سے کہا کرتے تھے جو یہ والد تک پہنچا دیتی تھیں۔ یہ ایک نہ نظر آنے والا ایسا فاصلہ تھا جو انہیں بحیثیت بیٹا ہمیشہ محسوس ہوا۔ وہ آج بھی سوچتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یاد کرنے کو بہتر باتیں زیادہ ہوتیں۔
لحاظ علی کہتے ہیں کہ انہیں اگر کبھی کوئی شکایت کرتا تو ان کے والد اس کی تصدیق کیے بنا ہی انہیں مارتے تھے۔ انہیں بچپن سے ہی ان کی یہ عادت ناپسند تھی۔ وہ غصے کے بہت تیز تھے یہاں تک کہ انہیں اپنے گھر کے سامنے بھی کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔
وقار ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے وابستہ ہیں۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ میٹرک میں تھے اور کرکٹ کھیلنے کا انہیں جنون تھا تو اکثر دوستوں کے ساتھ میچز کھیلنے گھر کے قریب میدان جایا کرتے تھے۔ ان کے بقول ایک روز انہیں دیر ہوگئی اور ان کے والد میدان پہنچ گئے۔ انہوں نے ان کے دوستوں کے سامنے انہیں بہت بری طرح مارا پیٹا اور ان کا بیٹ وہیں توڑ دیا۔ یہاں تک کہ ان کے دوستوں تک کو برا بھلا کہا۔ وہ کئی روز شرمندگی سے باہر نہ نکلے۔ وہ جو کرتے، ان کے والد کو اس پر اعتراض ہوتا۔ وہ بار بار انہیں خاندان کے بچوں کی مثالیں دے کر نکما کہتے اور رشتے داروں کے سامنے بھی برا کہتے۔ اسی وجہ سے فاصلہ بڑھتا چلا گیا اور وہ آج بھی ان سے بات کرتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔
اپنے والد کی کون سی بات سب سے زیادہ پسند ہے؟
بچپن کو یاد کرتے ہوئے زاہد اقبال بتاتے ہیں کہ انہیں یاد ہے کہ انہیں ایک بار بہت تیز بخار ہوا تو ان کے والد انہیں سرہانے بیٹھ کر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتے رہے۔ وہ امی امی کہتے رہے پر وہ پوری رات میرے ساتھ رہے اور بخار اتار کر دم لیا۔ اسی طرح بچپن میں انہوں نے اپنی امی کی کوئی انگوٹھی انگلی میں پھنسا لی اور میرے والد مجھے کسی سنار کے پاس لے گئے کہ انگلی سے انگوٹھی نکالی جائے۔ انہوں نے اس روز ان کی آنکھوں میں فکر اور تکلیف کو بغور دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے آنسو ضبط کیے ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے کی جدوجہد سے وہ اس اذیت سے آزاد ہوئے لیکن انہیں اپنے والد کی وہ فکرمندی نہیں بھولتی۔ وہ بہت احساس کرنے والے انسان تھے۔ اپنے بچوں کے لیے سب کرنے والے، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے۔
لحاظ علی کا کہنا تھا کہ کتب بینی کا شوق انہیں اپنے والد سے ملا۔ وہ بچپن سے دیکھتے تھے کہ ان کے والد کوئی نہ کوئی کتاب گھر ضرور لاتے اور پڑھتے۔ اسی نے ان میں بھی یہ شوق پیدا کیا۔ ہمیشہ سچ بولنا، کھراپن، دوسروں کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلق رکھنا۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو انہوں نے بھی اپنے والد سے اپنانے کی پوری کوشش کی۔ وہ آج بھی شیخ عبدالقادر جیلانی کے واقعات سناتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولو چاہے نقصان ہی کیوں نہ ہو، یہی طرز عمل انہوں نے اپنے کاروبار میں بھی اپنایا۔ وہ ان خوبیوں سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ وہ چاہیں گے کہ ان کے بچے بھی یہ عادتیں اپنائیں۔
وقار کے مطابق ان کے بابا وقت کے پابند انسان رہے۔ انہوں نے انہیں ہمیشہ خواتین کی عزت کرتے دیکھا۔ خاندان کی خواتین جب بھی گھر آتیں تو وہ احترام میں کھڑے ہو جاتے، چاہے وہ ان سے عمر میں چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ہم بڑے ہو رہے تھے اور باہر کبھی دوستوں کے ساتھ گلی میں کھڑے ہوتے تو وہ اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے اور کہتے کہ اگر تم لڑکوں کی موجودگی میں کوئی عورت راستہ بدلنے پر مجبور ہو جائے تو سمجھ لو کہ بحیثیت انسان تم کیسے ہو۔ ان کے والد بے زبان جانوروں کے ساتھ بہت رحم دل تھے۔ وہ صبح فجر کے وقت چڑیوں کے لیے دانہ پانی رکھتے، رات کھانے میں اگر کوئی روٹی بچ جاتی تو وہ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے اور باہر بلیوں کتوں کے لیے ایک برتن میں رکھتے۔ اب ان کی عمر بہت ہوگئی ہے لیکن وہ یہ کام اب بھی کرتے ہیں۔
باپ کوکیسا ہونا چاہیے؟
اس سوال پر زاہد اقبال نے کہا کہ میرے نزدیک ایک باپ کو اپنے بچوں کا دوست ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس عادت کو اپنایا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں سے قریب رہیں۔ ان سے بات کریں اور جانیں کہ وہ کیا سوچتے ہیں، شاید یہی ایک فرق ہے جو ہماری نسل نے نہیں دیکھا۔ باپ کو اولاد کی بات سننی چاہیے، اسے یہ اعتماد دینا چاہیے کہ اگر وہ کسی مسئلے کاشکار ہوں تو وہ کہیں اور جاکر اپنا مسئلہ نہ بیان کریں بلکہ اپنے باپ سے شیئر کریں۔
ان کے بقول یہ ایک ایسا تعلق بنا دیتا ہے جس سے بچے کی تکلیف آدھی ہوجاتی ہے۔ ان کا بیٹا کھیلتے ہوئے گر جائے اور اسے چوٹ لگے تو وہ اسے سینے سے لگاتے ہیں۔ وہ اپنی تکلیف بھول جاتا ہے اور پھر کھیلنے دوڑنے نکل جاتا ہے۔
اویس احمد کا کہنا تھا کہ باپ کی شخصیت کا متوازن ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ اگر گھر میں کچھ اور باہر کچھ ہو تو بچہ کبھی اپنے دل کی بات، اپنے مسائل باپ سے نہیں کہہ سکے گا۔
وقار سمجھتے ہیں کہ آج کا باپ جس نے اپنے والد کی سختی، مار، ڈانٹ ڈپٹ سہی ہو۔ اسے یہ فارمولا کبھی اپنے بچوں کے ساتھ نہیں اپنانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ نہ صرف کھیلتے ہیں بلکہ گھنٹوں ان کی اسکول کی کہانیاں بھی سنتے ہیں۔ وہ کارٹون جو اب انہیں حفظ ہو چکے ہیں۔ اتنی ہی دلچسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں، جیسے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کی معصوم حرکتوں اور شرارتوں پر کھل کر قہقہہ لگاتے ہیں کیوں کہ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں نظر آتا ہے کہ ان کے بچے کی آنکھوں میں ان کے لیے پیار ہے، احساس ہے نہ کہ وہ ڈر اور خوف جو وہ آج تک اپنے والد سے محسوس کرتے ہیں۔ وہ اب اپنے بچوں کے ساتھ اپنا بچپن جی رہے ہیں۔
لحاظ علی نے بتایا کہ ان کے نزدیک ایک باپ بیٹے کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلق ہونا چاہیے۔ ایک ایسا تعلق جس میں ایک بیٹے کو باہر کسی دوست کی ضرورت نہ پڑے۔ ایک باپ کو اپنے بچے کو وقت دینا چاہیے، ان کے ساتھ موویز دیکھنی چاہئیں، کتابیں پڑھنی چاہئیں، نماز اکھٹی پڑھنی چاہئیں، سیر پر ساتھ جانا چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سب سے وہ فاصلہ ختم ہوگا جو دلوں میں دوریاں پیدا کرتا ہے۔ لیکن ان کے بقول اس دوستی میں باپ کے لیے احترام کا رشتہ کبھی کم نہیں ہونا چاہیے۔