سابق وزیراطلاعات اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن کے چیئر مین اور ممبران کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کے کیس میں دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے اور انہیں 27 جنوری کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان کی عدالت میں پیشی کے بعد فواد چوہدری کو اسلام آباد کے پمز اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے ان کا طبی معائنہ کیا جس میں انہیں مکمل فٹ قرار دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے خلاف بیان بازی پر فواد چوہدری کی گرفتاری کے بعد جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیشی ہوئی۔ سماعت ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے دو گھنٹےسے زائد وقت کے لیے فیصلہ مخفوظ کیا تھا۔ اس دوران فواد چوہدری کو کمرہ عدالت سے بخشی خانے بٹھایا گیا۔ پھر اس کے بعد میڈیکل کے لیے فواد چوہدری کو پمز لے جایا گیا۔
فواد چوہدری کے چہرے پر کپڑا ڈال کر عدالت میں لایا گیا
سماعت شروع ہونے سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد کے باعث ڈیوٹی مجسٹریٹ کو ان کی اپنی عدالت کے بجائے ایک اور جج کے کمرہ عدالت میں لے جایا گیا۔ کمرہ عدالت سے باہر بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے ۔ فواد چوہدری کو چہرے پر سفید کپڑا ڈال کر پیش کیا گیا۔
سماعت شروع ہوئی تو ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے استفسار کیا کہ بتائیں کہ جگہ کہاں ہے کہ فواد چودھری کو کمرہ عدالت میں لایا جاسکے ؟ فیصل چوہدری نے کہا ہم انہیں لے آتے ہیں۔' اس پر جج نے کمرہ عدالت میں رش کو دیکھتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت میں جگہ بنےگی تو فواد چودھری کو لے آئیں ۔ یہ کہہ کر ڈیوٹی مجسٹریٹ اپنی کرسی سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں واپس چلے گئے۔
20 منٹ بعد مجسٹریٹ دوبارہ عدالت میں آئے تو کہا کہ فواد چودھری باہر ہیں تو صحیح ہے۔' فیصل چوہدری نے فوراً کہا کہ 'سر آپ حکم کریں تو انہیں اندر لے آئیں گے۔' اس کے بعد اسلام آباد پولیس کی جانب سے فواد چوہدری کو ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
فواد چوہدری کے چہرے پر سفید چادر ڈال کر عدالت لایا گیا۔ پیش کرنے کے بعد فواد چودھری کے چہرے پر سے سفید چادر اتار دی گئی۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن کے مدعی ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے وکلا کی ٹیم بھی اسلام آباد کچہری پہنچی۔ پبلک پراسیکیوٹر عدنان علی بھی عدالت میں حاضر ہوئے۔ جب کہ فواد چودھری کی طرف سے وکیل قیصرامام اور علی بخاری عدالت پیش ہوئے۔
فواد چوہدری نے الیکشن کمشن کو منشی کہا ہے: وکیل
الیکشن کمیشن وکیل سعدحسن نے مقدمے کا متن پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ 'فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حالت اس وقت منشی کی سی ہے۔' فواد چوہدری نے لقمہ دیتے ہوئے کہا کہ 'الیکشن کمیشن کی حالت منشی کی سی ہو گئی ہے۔'
الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کروانے کے تمام اختیارات ہیں۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ فواد چودھری کی تقریر کرنے کا مقصد سب کو اکسانا تھا۔ فواد چودھری نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے گھروں تک پہنچیں گے۔ مقصد الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت کو فروغ دینا تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فواد چودھری کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے۔ میں الزامات پڑھ رہاتھا تو فواد چودھری انشاللہ ماشاءاللہ کہہ رہے تھے۔ فواد چودھری نے جو تقریر میں کہا وہ انہوں نے مانا بھی ہے۔ فواد چودھری کی تقریر کے پیچھے ایک مہم چل رہی ہے۔ فواد چودھری کے بیان پر پولیس کو ابھی تفتیش کرنی ہے۔ دلائل کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
پولیس مجھے بھگت سنگھ اور نیلسن منڈیلا بنا رہی ہے: فواد چوہدری
الیکشن کمیشن کے دلائل کے بعد فواد چوہدری نے عدالت سے کہا کہ بغاوت کی دفعہ بھی مقدمہ میں لگا دی گئی ہے ، مجھے بھگت سنگھ اور نیلسن منڈیلا کی صف میں شامل کر دیا گیا ہے۔ میرے خلاف تو مقدمہ بنتاہی نہیں ہے۔ ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، کوئی تنقید نہیں کر پائے گا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ نفرتیں نہ پھیلائیں کہ لوگ ذاتی لیول پر آ جائیں۔ لاہور پولیس نے گرفتار کیا، میرا موبائل قبضے میں لیا اور مجھے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا۔
فواد چودھری نے مزید کہا کہ میں سینئر وکیل ہوں۔ پارلیمنٹیرین ہوں۔ تحریک انصاف کا ترجمان ہوں۔ سابق وفاقی وزیر ہوں۔ میں دہشت گرد نہیں کہ مجھے سی ٹی ڈی میں رکھا گیا۔ تفتیشی افسر نے مجھ سے کوئی تفتیش نہیں کی۔ میری گرفتاری غیرقانونی ہے لہذا عدالت مقدمہ خارج کر دے۔
فیصل چوہدری وکیل نے عدالت سے کہا کہ 'تفتیشی افسر نے کیا برآمد کرناہے؟ جسمانی ریمانڈ مخصوص تفتیش کے لیے کیا جاتا ہے۔
فواد چوہدری کے وکیل علی بخاری نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کے بعد آپ انصاف کرنے والے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنے قابل انسان کو ہتھکڑی میں نہیں دیکھا۔ فواد چودھری کو لاہور سے گرفتار کرنے کا تسلیم کیا گیا۔ اگر مدعی مقدمہ کی بات مان کی جائےتو مقدمہ تولاہورمیں ہونا چاہیے تھا۔ قانون کے مطابق مقدمہ وہاں ہوتاہےجہاں جرم کیاجاتاہے۔ ایسا نہیں کہ قتل لاہور میں تو مقدمہ کراچی میں کیا جا رہا ہو۔ پولیس نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں تفتیش کیا کی ہے؟ دہشت گردی کا کیس ہے نہیں۔ پراسیکیوشن نے آخر کرنا کیا ہے۔ دلائل مکمل کرتے ہوئے وکیل علی بخاری نے پراسیکیوشن کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کر دی۔
استغاثہ نے عدالت سے استدعا کی فواد چوہدری کے موبائل اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر ڈیوائسز برآمد کرنی ہیں۔ فواد چوہدری کا فوٹو گرامیڑک ٹیسٹ اور وائس میچ کروانا ہے۔
واقعہ لاہور میں ہوا ہے تو مقدمہ بھی وہیں چلنا چاہیے: وکیل
فواد چوہدری کے دوسرے وکیل قیصرامام نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دیکھناہےکہ کون سی دفعات مقدمہ میں لگتی ہیں اور کون سی نہیں۔ اندراجِ مقدمہ کےحوالےسےسب سےپہلا اعتراض اٹھاتا ہوں۔ کیا کسی کے کہنے پر مقدمہ درج کیاجاسکتاہے؟ فواد چودھری نے جو بیان دیا وہ تھانہ کوہسار کی حدود میں تھا ہی نہیں۔
عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور دو گھنٹوں کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پرپولیس کے حوالے کردیا۔ فیصلہ سے قبل ہی اسلام آباد پولیس فواد چوہدری کو پمز اسپتال لے گئی جہاں ڈاکٹرز کی ایک ٹیم نے ان کا طبی معائنہ کیا اور انہیں مکمل فٹ قرار دیا۔
فواد چوہدری پر الیکشن کمیشن کے ممبران اورچیئرمین کو دھمکیاں دینے کے الزام میں گزشتہ رات سیکرٹری الیکشن کمیشن عمرحمید کی درخواست پر اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں انہیں بدھ کی صبح لاہور سے گرفتار کرلیا گیا اور شام کو انہیں اسلام آباد منتقل کیا گیا ہے جہاں انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے بعد اب پولیس تحویل میں سی ٹی ڈی کی عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے۔