پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں پر مشتمل ٹیکس ڈائریکٹری برائے سال 2019 جاری کر دی ہے۔ اس ڈائریکٹری کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان کے ادا کیے گئے ٹیکس میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
اراکین پارلیمنٹ کی اس ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق 80 سینیٹرز اور 312 قومی اسمبلی کے اراکین نے 2019 میں اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔
سال 2019 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نجیب ہارون نے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔ انہوں نے اپنی مجموعی آمدن پر 14 کروڑ سات لاکھ 49 ہزار روپے ٹیکس دیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان
ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی سالانہ آمدن چار کروڑ 45 لاکھ روپے پر 98 لاکھ 54 ہزار 959 روپے ٹیکس ادا کیا۔
عمران خان کی جانب سے ادا کیے گئے ٹیکس میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
سال 2018 میں عمران خان نے دو لاکھ 82 ہزار اور سال 2017 میں ایک لاکھ 30 ہزار روپے ٹیکس دیا تھا۔
شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے قابلِ ٹیکس آمدن تین کروڑ 50 لاکھ روپے ظاہر کی ہے۔
اس آمدن پر انہوں نے سال 2019 میں 71 لاکھ پانچ ہزار روپے ٹیکس جمع کرایا تھا۔ 2018 میں شہباز شریف نے 97 لاکھ 30 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔
آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کی سال 2019 میں مجموعی آمدن 28 کروڑ روپے سے زائد رہی۔ انہوں نے اس آمدن پر 22 لاکھ 18 ہزار 229 روپے ٹیکس دیا۔
آصف علی زرداری نے 2018 میں 28 لاکھ 91 ہزار 445 روپے ٹیکس جمع کرایا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری
ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی 2019 میں مجموعی آمدن تین کروڑ 80 لاکھ روپے تھی جس پر انہوں نے پانچ لاکھ 35 ہزار 245 روپے ٹیکس ادا کیا۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ میں سینیٹر طلحہ محمود نے سب سے زیادہ تین کروڑ 22 لاکھ 80 ہزار روپے کا ٹیکس ادا کیا جب کہ سب سے کم ٹیکس ادا کرنے والی سینیٹر خالدہ عطیب ہیں جنہوں نے صرف 315 روپے ٹیکس دیا۔ مذکورہ سینیٹر کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے 2019 ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق 13 لاکھ 99 ہزار 327 اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی نے 40 ہزار 913 روپے ٹیکس ادا کیا۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے پانچ لاکھ 55 ہزار 794 روپے جب کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ایک لاکھ 49 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔
وفاقی کابینہ
وزیرِ اعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ کے اراکین میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں وزیرِ خزانہ شوکت ترین تھے۔ انہوں نے سال 2019 میں دو کروڑ 66 لاکھ روپے ٹیکس جمع کرایا۔
اسی طرح وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی 83 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر آٹھ لاکھ 51 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔
وفاقی وزیرI اطلاعات فواد چوہدری کی 2019 کی سالانہ آمدن تقریباً 34 لاکھ روپے تھی جس پر ایک لاکھ 36 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔
وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے سال 2019 میں اپنی تین کروڑ روپے کی آمدن پر 42 لاکھ 72 ہزار روپے ٹیکس دیا۔
وفاقی کابینہ کے دیگر اراکین میں وفاقی وزیر مونس الٰہی نے 65 لاکھ 34 ہزار، سید فخر امام نے 55 لاکھ، وزیرِ قانون فروغ نسیم نے 42 لاکھ 85 ہزار اور وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے آٹھ لاکھ 85 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔
اس کے علاوہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے 12 لاکھ 57 ہزار روپے، وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے 12 لاکھ 11 ہزار روپے، وفاقی وزیر عمر ایوب نے 9 لاکھ 57 ہزار روپے، اعظم سواتی نے 7 لاکھ 84 ہزار روپے قومی خزانے میں جمع کرائے۔
عمران خان کی کابینہ کے دیگر اراکین میں علی زیدی نے 10 لاکھ 47 ہزار روپے، وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے 5 لاکھ 57 ہزار روپے، وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری تین لاکھ 71 ہزار روپے، وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ دو لاکھ 11 ہزار روپے، وفاقی وزیر اعجاز شاہ ایک لاکھ 91 ہزار روپے جب کہ میاں محمد سومرو نے ایک لاکھ 87 ہزار روپے کا ٹیکس جمع کرایا۔
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار نے ایک لاکھ 58 ہزار روپے، وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے ایک لاکھ 57 ہزار، وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے ایک لاکھ 35 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔
اسی طرح وفاقی وزرا ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے 98 ہزار روپے، مراد سعید نے 86 ہزار روپے، علی امین گنڈا پور نے 67 ہزار روپے، نورالحق قادری نے 62 ہزار روپے، صاحبزادہ محبوب سلطان نے 67 ہزار روپے ٹیکس جمع کرایا۔
وزرائے اعلیٰ
ایف بی آر ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صرف دو ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔
عثمان بزدار کے اثاثوں کی سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق ان کی مجموعی آمدنی نو لاکھ 38 ہزار 858 روپے ہے جب کہ زرعی آمدن 80 ہزار روپے ہے۔
صوبۂ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ نے 2019 کی ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار 326 روپے آمدن پر 19 لاکھ 21 ہزار 914 روپے ٹیکس ادا کیا۔
خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ محمود خان نے اپنی 25 لاکھ آٹھ ہزار 386 روپے کی آمدن پر 66 ہزار 285 روپے کا ٹیکس جمع کرایا۔
اسی طرح وزیرِاعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اپنی مجموعی آمدن 78 لاکھ 58 ہزار 885 روپے پر 10 لاکھ 61 ہزار 777 روپے ٹیکس ادا کیا۔
'ایک کروڑ 20 لاکھ نئے افراد کو ٹیکس نوٹس بھجوائے جائیں گے'
ادھر پیر کو اراکین پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ کسی ملک کی ترقی میں ٹیکس کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں 74 برسوں سے مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کی شرح 14 فی صد سے زائد نہیں ہوسکی ہے۔
ان کے بقول اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں کو عام کرنے کا مقصد ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ عام آدمی تک ترقی کو پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شعبہ ٹیکس کے دھارے میں شامل ہو اور اس حوالے سے کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس اکٹھا نہ کرسکنے کے باعث حکومت کے پاس جاری اخراجات کو پورا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ ان کے بقول اسی وجہ سے بعض اوقات حکومتی اخراجات کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔
شوکت ترین کے مطابق حکومت ٹیکس نظام کو آسان بنا رہی ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان ٹیکس حصول کے سلسلے میں ہم آہنگی لائی جا رہی ہے تاکہ کاروباری طبقے کو دوہرے ٹیکس سے نجات مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 20 لاکھ ہے جو کم از کم ایک کروڑ 80 لاکھ ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں نئے افراد کو ٹیکس کے دھارے میں لانے کے لیے ایف بی آر نادرا کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کا ڈیٹا تیار کیا گیا ہے جنہیں ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لیے کسی کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ البتہ ان افراد کو بینک اکاؤنٹس، بیرون ملک سفر اور بلز کی ادائیگی کی بنیاد پر ٹیکس کے نوٹس بھجوائے جائیں گے اور اگر کسی کو اعتراض ہوگا تو وہ کسی نجی آڈٹ فرم سے آڈٹ کرا سکے گا۔
'وزیرِاعظم نے ڈائریکٹری میں کچھ تبدیلیوں کا کہا تھا'
علاوہ ازیں ٹیکس ڈائریکٹری 2019 کے اجراء میں تاخیر کی وجوہات بتاتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے کہا کہ وزیرِاعظم عمران خان نے اس ڈائریکٹری میں کچھ تبدیلیاں کرنے کا کہا تھا جس پر اسے دوبارہ سے مرتب کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈائریکٹری میں صرف اراکین پارلیمنٹ کے نام، سالانہ آمدن اور ادا کیے گئے ٹیکس کی تفصیلات تھیں البتہ نئی ڈائریکٹری میں ٹیکس اور ایسوسی ایشن آف پرسن میں ان کے حصص کا ذکر بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سال 2020 کی ٹیکس ڈائریکٹری بھی تیار ہے جسے کابینہ کی منظوری سے جلد جاری کردیا جائے گا۔