رسائی کے لنکس

عمران خان پر حملہ: ’وہ کوئی عام فائر کی آواز نہیں تھی‘


عمران خان کے کنٹینر پر لانگ مارچ کے دوران جمعرات کو فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔
عمران خان کے کنٹینر پر لانگ مارچ کے دوران جمعرات کو فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں چار گولیاں لگیں اور مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں پتہ تھا کہ وزیر آباد یا گجرات میں مجھے مارنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔دوسری طرف پولیس اور کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کررہے ہیں اور ہر پہلو اور زاویے سے کیس کو پرکھا جارہا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ کئی اہم سوالات کا جواب تلاش کیا جارہا ہے کہ لانگ مارچ میں فائرنگ ملزم نوید کا انفرادی عمل تھا یا کوئی مشترکہ سازش، اور فائرنگ کرنے والا وہ اکیلا تھا یا کسی اور نے بھی گولی چلائی؟

ان کے مطابق قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم نوید کے سیاسی یا مذہبی رحجانات سمیت تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔

پولیس شواہد کی مدد سے جمعرات کو وزیرآباد میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے کی تفصلات حاصل کررہی ہے جب کہ ہم نے وقوعے کے روز عینی شاہدین بات کرکے کچھ نکات جمع کیے ہیں جنھیں ملا کر اس روز ہونے والے واقعات کی ایک تصویر سامنے آتی ہے۔

’ہم سمجھے آتش بازی ہورہی ہے‘

’’ہم کنٹینر کے ساتھ ساتھ پانچ چھ کلو میٹر سے پیدل چل رہے تھے، رستے میں استقبالیہ کیمپوں پر آتش بازی بھی ہوتی اور کچھ مقامات پر ہوائی فائرنگ بھی کی گئی ، جب کنٹینر پر فائرنگ کی گئی تو سب یہی سمجھے کہ یہ آتش بازی ہورہی ہے لیکن اب معاملہ الٹ نکلا۔‘‘

یہ کہنا ہے پی ٹی آئی کے ایک کارکن ہمایوں خان کا جوکہ عمران خان کے پرستار بھی ہیں اور کئی دنوں سے اس انتظار میں تھے کہ کب ان کے قائد کا جلوس وزیر آباد میں داخل ہو اور وہ استقبالیہ جلوس میں شامل ہوں۔

ہمایوں خان نے بتایا کہ جمعرات کو جب جلوس کا آغاز کوٹ خضری سے ہوا تو عمران خان ہشاش بشاش لگ رہے تھے۔ وہ بھی سب کے ساتھ پیدل ہی روانہ ہوئے ، پھر مولانا ظفر علی خان چوک میں استقبالیہ کیمپ لگا تھا جس کے بعد اللہ والا چوک میں۔ یوں لگتا تھا کہ سارا وزیر آباد ہی باہر نکل یا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے علاقے کا رواج ہے کہ جس کو عزت دیتے ہیں، بے پناہ دیتے ہیں۔ شادی بیاہ یا خوشی کا کوئی بھی موقع ہو ، آتش بازی اور ہوائی فائرنگ کو اس کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ہمایوں خان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ جب اللہ والا چوک میں فائرنگ ہوئی تو پہلے تو سب یہی سمجھے کہ یہ آتش بازی ہورہی ہے۔ لیکن کچھ ہی لمحوں بعد بھگدڑ سے سب کو فکر لاحق ہوگئی۔ سب کی یہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ عمران خان کی زندگی کو محفوظ رکھے۔

’چاروں طرف پولیس اہل کار تھے لیکن۔۔۔‘

وقوعہ کے عینی شاہد ایک پولیس اہلکار محمد ایوب نے بتایا کہ کنٹینر کے چاروں اطراف پولیس اہلکاران موجود تھے لیکن حملہ آور پورے ارادے سے آیا تھا۔

محمد ایوب نے بتایا کہ اس کی ڈیوٹی اللہ والا چوک کی دائیں جانب پولیس خدمت مرکز کے باہر لگائی گئی تھی اور جب کنٹینر پر فائرنگ کی گئی تو وہ اس سے لگ بھگ 25 سے 30 گز کے فاصلے پر تھا۔

پولیس اہل کار کے مطابق ملزم نے نائن ایم ایم سے برسٹ فائر کیا اور فائر ہوتے ہی میرے ذہن میں آیا کہ خیر نہیں لگتی۔ کیوں کہ اگر خیر مقدم کے لیے فائرنگ کرنا ہو تو زیادہ تر 30 بور پستول سے کی جاتی ہے،نائن ایم ایم سے نہیں۔ آٹھ 10 سیکنڈز میں بھگدڑ شروع ہوگئی تو سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔

’سب تتر بتر ہوگیا۔۔۔‘

ریسکیو 1122کا مقامی دفتر پولیس خدمت مرکز کے بالکل ساتھ اللہ والا چوک ہے اور جب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تو کنٹینر ریسکیو 1122 کے دفتر کے باہر سے گزر رہا تھا۔

ریسکیو کے ایک اہلکار غلام فرید نے بتایا کہ وقوعہ کے وقت بہت زیادہ رش تھا ، پی ٹی آئی کے کارکن بھی جوشیلے تھے ، پولیس اور میڈیا والے بھی کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے لیکن جب فائرنگ ہوئی تو سب کچھ تتر بتر ہوگیا۔

غلام فرید کے مطابق کسی کو کچھ نہیں پتا تھا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی اور حملہ آور ایک تھا یا اس سے زیادہ۔ اس لیے فوری طور پر تو سب لوگ چھپنے اور خود کو محفوظ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن تین چار منٹ بعد جب حالات نارمل ہوئے تو پھر ہر بندہ ہی آگے آگے تھا۔

صحافیوں نے کیا دیکھا؟

وزیر آباد میں جس دن لانگ مارچ پر حملہ ہوا اسے شروع ہوئے ساتواں دن تھا۔ دو روز تک لاہور کے صحافیوں نے اس کی کوریج کی جب کہ اگلے پانچ روز گوجرانوالہ اور اس کے گردونواح کے نامہ نگار لانگ مارچ کی کوریج میں مصروف تھے۔ کچھ اداروں کی ڈی ایس این جیز لاہور ہی سے لانگ مارچ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھیں۔

حافظ شاہد منیر ایکسپریس نیوز کے بیورو چیف ہیں اور جس وقت فائرنگ ہوئی ان کی ڈی ایس این جی عمران خان کے کنٹینر کے بالکل پیچھے تھی۔ وہ ڈی ایس این جی کے اوپر کھڑے ہوکر اپنا وی لاگ بنا رہے تھے۔

حافظ شاہد منیر کا کہنا ہے کہ جب لانگ مارچ کا آغاز ہوا تھا تب سے ان کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ لانگ مارچ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فائرنگ شروع ہوئی تو کھڑا ہونے کی وجہ سے تمام مناظر ان کے سامنے تھے۔ بھگڈر مچی ہوئی تھی۔ کچھ لوگ ملزم کو پکڑنے کی کوشش کررہے تھے اور آخر میں پولیس بھی حرکت میں آگئی۔

وہ کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے میڈیا ورکرز کنٹینر کے قریب ترین ہونے کے باوجود محفوظ رہے۔ موقعے پر ملزم نوید ہی فائرنگ کرتا نظر آیا یا پھر کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ کنٹینر پر موجود گارڈ نے بھی دو فائر کئے ہیں۔

جیو نیوز کے نمائندہ رانا انصر فائرنگ کے کنٹینر کے آگے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ کنٹینر پر چونکہ ایسی ڈیوائسز لگائی گئی تھیں کہ یہ جہاں ہوتا ہے گردونواح کے لگ بھگ دو کلو میٹر کے علاقے کے موبائل سگنلز اور انٹرنیٹ سگنلز جام کردیتا ہے۔ مجھے کچھ ضروری ٹکرز اور فوٹیج اپنے ادارے کو بھجوانا تھیں اس لئے میں ذاتی گاڑی پر اللہ والا چوک کراس کرکے تھوڑی دور گیا تاکہ جہاں انٹرنیٹ سگلنلز آئیں وہاں سے اپنے ادارے سے رابطہ کرسکوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اچانک میں نے فائرنگ کی آواز سنی تو ایک لمحے کو سکتے میں آگیا کہ یہ کیا ہوا ہے کیونکہ وہ عام فائر نہیں تھا۔ ان کے بقول، اسلحے کی آوازوں کا فرق بخوبی جانتا ہوں۔ میں واپس دوڑا تو دیکھا کہ کنٹینر کے اندر اور باہر کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے مناظر ریکارڈ کرکے انہیں ادارے کو بھجوانے کے لیے دوبارہ واپس اسی جگہ جانا پڑا جہاں سگنلز آرہے تھے۔ فائرنگ کے وقت وہاں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔ اس سے یہ شور مچ گیا کہ عمران خان کو بھی گولی لگی ہے ، لیکن جب وہ کنٹینر سے باہر آئے تو معاملہ کلیئر ہوا کہ گولی ان کے پیروں پر لگی ہے۔

ساری سیاست آرمی چیف کی تعیناتی کے گرد گھوم رہی ہے: شیخ رشید
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:01 0:00

سما نیوز کے نمائندۂ خصوصی رانا محسن خالد واقعے کے وقت اپنے ادارے کے لیے ایز لائیو ریکارڈ کرانے میں مصروف تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ اتنا آناً فاناً ہوا کہ ہم نے ایز لائیو چھوڑ کر وہاں پیش آنے والے ہنگامی حالات کی فوٹیج بنانا اور حالات کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی۔

انہوں ںے بتایا کہ صورتِ حال کچھ ایسی بن گئی تھی کہ سرکاری اہلکاروں کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے اور پی ٹی آئی کے کارکن بھی پریشان تھے۔ اس وقت میڈیا ورکرز کے لیے موبائل سگنلز جام کی ڈیوائسسز بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھیں۔

محسن خالد نے بتایا کہ جو لوگ اپنے بچوں کو ساتھ لائے ہوئے تھے ان کے لیے وہاں سے نکلنا مشکل کام تھا۔ خواتین کارکن بھی استقبالیہ جلوس میں موجود تھیں جن کو بار بار وہاں سے چلے جانے کا کہا جارہا تھا۔ کچھ خواتین تو فوری چلی گئیں جب کہ کچھ خواتین نے رونا شروع کردیا کہ وہ عمران خان کی خیریت کی اطلاع تک وہاں سے نہیں جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG