بریگزٹ پر ہونے والے کشیدہ مذاکرات کی سربراہی کرنے والے، یورپی یونین کے سابق اعلی عہدیدار، مشیل بارنی اے کا کہنا ہے کہ آئندہ تین سے پانچ سال کیلئے فرانس کیلئے امیگریشن کو بند ہونا چاہئیے اور شینگن نظام کے تحت رکن ملکوں کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ کے جیمی ڈیٹمر کی رپورٹ کے مطابق، مشیل ایک فرانسیسی سیاستدان ہیں اور چند فرانسیسی میڈیا اداروں کے مطابق، وہ آئندہ سال صدارتی انتخابات میں صدر امینوئیل میخواں کے مقابلے پر کھڑا ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ مشیل کا کہنا تھا کہ یورپی یونین میں تارکین وطن کی آمد کام نہیں کر رہی، اور یہ کہ یورپی بلاک کی بیرونی سرحدیں چھلنی بنتی جا رہی ہیں۔
ایک فرانسیسی ٹیلی وژن سٹیشن کو منگل کے روز انٹرویو میں ان کے کہے ہوئے یہ الفاظ ،مبصرین کے مطابق، وسطی اور جنوبی یورپ کے قوم پرست اور عوامیت پسند طبقے میں بہت مقبول ہونگے، جو کہ شینگن ویزا نظام کے تحت رکن ملکوں کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کے ناقد ہیں۔ وہ اس بات کو بنیاد بنائیں گے کہ یورپی بلاک کی بیرونی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔
مشیل نے، جو کہ فرانس کے سابق وزیر خارجہ بھی رہے ہیں، کہا ہے کہ میں مسائل کو ویسے ہی دیکھتا ہوں، جیسے وہ ہیں اور جیسے کہ فرانسیسی لوگ ہر روز ان کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس کو کم از کم تین سے پانچ سال کا وقت درکار ہے، جس دوران تارکین وطن کی آمد کو موخر کر دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ طالب علموں کی بات نہیں کر رہے، نہ ہی مہاجرین کی ، جن کے ساتھ انسانیت اور خوش اسلوبی سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے بقول، اس پورے عمل کے نئے ضابطے مقرر کرنا ضروری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ شینگن معاہدے پر بات کرنے کی ضرورت ہے، اور یورپ میں ممکنہ طور پر زیادہ سخت سرحدی کنٹرول نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شاید شینگن ویزا ضوابط پر دوبارہ سے بات چیت کرنا ضروری ہے اور یورپی باشندوں کیلئے ایک دوسرے کی سرحدوں کے آر پار آنے جانے کے بارے میں نئے ضوابط متعارف کروانے کی ضرورت ہو۔
ہنگری کے وزیر اعظم، وکٹر اوربن جیسے وسطی یورپ کے عوامیت پسند لیڈر طویل عرصے سے شینگن ویزا کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے کھلے پن کی وجہ سے تارکین وطن کی آمد کا بحران پیدا ہوا۔
ہنگری کے وزیر اعظم اوربن سمیت وسطی یورپ کے عوامیت پسندوں نے یورپی یونین کی طرف سے تارکین وطن کے بوجھ کو مل کر برداشت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ تارکینِ وطن زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور زیریں صحارا سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ جنوبی یورپ کی ساحلوں سے یورپ میں داخل ہوتے ہیں، جن کا بوجھ اٹھانے سے وسطی یورپ کے ممالک نے انکار کر دیا تھا۔
مشیل نے اپنے انٹرویو میں سیکیورٹی خدشات پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امیگریشن اور دہشت گرد نیٹ ورکس کے درمیان روابط ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تارکین وطن کے بہاؤ میں شامل ہو گئے تھے۔ انہوں نے انسانی اسمگلنگ کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔