امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے آزادی اظہار کو دبانے کی کارروائی پر جمعے کے روز ترکی کی سرزنش کی۔
بائیڈن نے استنبول میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بتایا کہ صحافیوں کو قید کرکے اور تعلیم دانوں کے خلاف تفتیش کے احکامات دے کر، ترک حکومت نے کوئی 'اچھی مثال' قائم نہیں کی، جو ترکی کی کُرد اکثریت والے جنوب مشرقی علاقے سے تعلق رکھنےوالوں کے خلاف حکومتی فوجی کارروائی پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔
نیٹو کے اتحادی کے خلاف غیر معمولی طور پر سخت تنقید کرتے ہوئے، بائیڈن نے کہا کہ 'جب تنقیدی رپورٹنگ پر صحافیوں کو ہراساں اور قید کیا جائے گا، جب انٹرنیٹ پر قدغنیں لگائی جائیں گی اور یوٹیوب اور ٹوئٹر جیسے سماجی میڈیا کو بند کیا جائے گا اور 1000سے زائد تعلیم دانوں پر غداری کا الزام لگایا جائےگا، محض اس بنا پر کہ اُنھوں نے ایک درخواست پر دستخط کئے، یہ کوئی ایسی مثال نہیں جس پر فخر کیا جا سکے'۔
ملاقات سے قبل، بائیڈن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ 'ترکی جتنا زیادہ کامیاب ہوگا، اتنا ہی مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر علاقوں کو مضبوط پیغام ملے گا، جو آزادی کا مفہوم جاننے کو ترس رہے ہیں'۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے ترکی ایک 'تابناک جمہوریت' کی ایک 'مضبوط مثال' پیش کرے۔
بائیڈن نے نومبر میں روزنامہ 'جمہوریت' کے ایڈیٹر اِن چیف، کان دندار اور اخبار کے انقرہ کے بیورو چیف، اردم گُل کے خلاف خفیہ اطلاعات افشا کرنے کے الزامات لگائے جانے پر تنقید کی۔
امریکی نائب صدر نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ترکی 1200 سے زائد تعلیم دانوں کے خلاف تفتیش کر رہا ہے، جنھوں نے ایک درخواست پر دستخط کیے تھے جس میں ملک کے کُرد آبادی کے مضبوط گڑھ میں ترکی کی فوج کی کارروائی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اندازاً دو درجن اساتذہ کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ اُنھیں رہا کیا گیا ہے، لیکن اُن کے خلاف تفتیش ہونا باقی ہے۔
ترکی نے ملک میں یوٹیوب، ٹوئٹر اور دیگر سماجی میڈیا نیٹ ورک پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
استنبول کے دو روزہ دورے کے دوران، ہفتے کو بائیڈن تک صدر رجب طیب اردوان اور وزیر اعظم احمد دائوداوگلو سے ملاقات کریں گے۔
بائیڈن کے باہمی بات چیت کے ایجنڈے میں کئی ایک معاملات شامل ہیں، جن میں ترکی پر زور دیا جائے گا کہ وہ شام کی سرحد پر جہادی دراندازی کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔