لندن —
بناؤ سنگھار کرنا عورت کا شوق ہی نہیں بلکہ روایت بھی ہے۔ یوں تو خواتین اپنے حسن کی دیکھ بھال ہمیشہ سے کرتی آرہی ہیں لیکن اس رواج کو فیشن اور پھر آرٹ میں بدلنے کی ذمہ داری کا سہرا ماہر بیوٹیشنز کےسرہے جن کے ہاتھوں کےکمال سےچہرہ کنول بن جاتا ہےتوآنکھیں جھیل جیسی گہری دکھائی دیتی ہیں اور ہونٹ گلاب کی پنکھڑی معلوم ہوتے ہیں۔
خواتین سجنےسنورنے پر کتنا وقت صرف کرتی ہیں اس بات کا اندازہ ایک برطانوی سروے رپورٹ سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہےکہ ایک عام عورت اپنی پوری زندگی میں 474 دن یا تقریباً پندرہ ماہ سجنے سنورنے میں گزارتی ہے۔ اسی طرح ایک حالیہ تحقیق میں عورتوں کی زندگی بھر کےمیک اپ پر خرچ ہونے والی رقم کی مالیت کا اندازہ تقریبا 18ہزار پاؤنڈ لگایا گیا ہے۔
کیا خواتین واقعی میک اپ کے بغیر گزارا نہیں کر سکتیں یا ان کی زندگی میں بناؤ سنگھار کی کتنی اہمیت ہے ؟
اس بات کا جواب ہم نے ماہر بیوٹیشن شمسہ سے حاصل کیا ۔ میک اپ آرٹسٹ شمسہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خواتین اپنےمیک اپ کےحوالے سےکافی تنقید کا نشانہ بنائی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’عورت کو اللہ نے قدرتی طور پر حسن عطا کیا ہے ہم توبس اسے نکھارنے کی کوشش کرتے ہیں رہا سوال میک اپ کی اہمیت کا تو میں بھی اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ بننا سنورناعورت کا حق ہے جس کا خاص طور پر گھریلو خواتین کو خیال رکھنا چاہیئے۔‘‘
شمسہ نے بتایا کہ وہ بیوٹیشن تو ہیں لیکن گھر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے بیوٹی پارلرکے لیے وقت نہیں نکال سکتی تھیں اسی لیے ہفتے کے چند روز وہ فری لانس میک اپ آرٹسٹ کے طور پرکام کرتی ہیں۔ ’’آج کل ویسے بھی انٹرنیٹ کی مدد سے گھر سے کام کرنا آسان ہو گیا ہےکلائنٹ میرا کام فیس بک پر دیکھ لیتے ہیں اور پھر مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔
شمسہ کے مطابق گھروں پر دلہنوں کو تیار کرنے کا رواج گوکہ پرانا ہے لیکن مصروفیت کے اس دور میں پھرسےیہ رواج زور پکڑتا جارہا ہے پھر وہ چاہے ایک موبائل نیل آرٹسٹ ہو یا موبائل مہندی آرٹسٹ یا پھرفری لانسر بیوٹیشن جیسے پیشے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور ’’پھر ہماری خدمات بیوٹی پارلرز کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہےمیرے پاس زیادہ تربکنگ شادی کی تقریبات کے لیے آتی ہیں ۔شادی کے دن کے لیے میری خدمات کے پیکج میں دلہن کا مکمل میک اوورکے ساتھ دلہن کی سہلیوں اور ماں کا میک اپ بھی شامل ہوتا ہے۔‘‘
شمسہ کا کہنا تھا کہ برطانوی معاشرے میں پلنے بڑھنے والی پاکستانی لڑکیاں اپنی شادی بیاہ کے حوالے سے زیادہ فرمائش نہیں کرتیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ، شادی کے روز وہ ایک مکمل روایتی دلہن کے روپ میں نظر آئیں۔ لیکن بعض اوقات دلہنوں کی عجیب وغریب فرمائش مخمصے میں ڈال دیتی ہے۔
’’مثلا ایک لڑکی نے فرمائش کی کہ اسے شادی کے روز ایک فیک یا ڈمی لک چاہیے میں نے اسے کافی سمجھایا کیونکہ اس کا رنگ گورا تھا اوراسے زیادہ فاؤنڈیشن کی ضرورت نہیں تھی بہرحال اسی کی خوشی پوری کرنی پڑی دلہن بننے کےبعد وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ کئی بارخواتین اپنے اصل نین نقش سےہٹ کر میک اپ کروانا پسند کرتی ہیں ایسے میں ’’ہم ان کےچہرے کو کنٹورنگ اور ہائی لائٹر کی مدد سے ایک نیا چہرہ دیتے ہیں یوں سمجھیئے کہ میک اپ کے ذریعے وقتی پلاسٹک سرجری کی جا سکتی ہے۔‘‘
شمسہ کے مطابق لندن میں کام کرنے کا تجربہ بہت مختلف ہے کیونکہ یہاں مختلف قومیتوں اور عقائد سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں۔ ان کے تجربے میں صومالی، عراقی، افغانی، انڈین، بنگلہ دیشی، مڈل ایسٹ اور افریقی ممالک کی خواتین سبھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دلہن کے لباس اور میک اپ کے حوالے سےہرجگہ کی روایات مختلف ہوتی ہیں لیکن پاکستانی میک اپ بہت حد تک عرب میک اپ سےمماثلت رکھتا ہے۔
شمسہ نے بتایا کہ وہ اپنا کام اپنے شوہر کی مدد کے بغیر جاری نہیں رکھ سکتیں اور ان ہی حوصلہ افزائی اور معاونت سے یہ شوق ان کا روزگار بنا گیا ہے۔
خواتین سجنےسنورنے پر کتنا وقت صرف کرتی ہیں اس بات کا اندازہ ایک برطانوی سروے رپورٹ سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہےکہ ایک عام عورت اپنی پوری زندگی میں 474 دن یا تقریباً پندرہ ماہ سجنے سنورنے میں گزارتی ہے۔ اسی طرح ایک حالیہ تحقیق میں عورتوں کی زندگی بھر کےمیک اپ پر خرچ ہونے والی رقم کی مالیت کا اندازہ تقریبا 18ہزار پاؤنڈ لگایا گیا ہے۔
کیا خواتین واقعی میک اپ کے بغیر گزارا نہیں کر سکتیں یا ان کی زندگی میں بناؤ سنگھار کی کتنی اہمیت ہے ؟
اس بات کا جواب ہم نے ماہر بیوٹیشن شمسہ سے حاصل کیا ۔ میک اپ آرٹسٹ شمسہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خواتین اپنےمیک اپ کےحوالے سےکافی تنقید کا نشانہ بنائی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’عورت کو اللہ نے قدرتی طور پر حسن عطا کیا ہے ہم توبس اسے نکھارنے کی کوشش کرتے ہیں رہا سوال میک اپ کی اہمیت کا تو میں بھی اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ بننا سنورناعورت کا حق ہے جس کا خاص طور پر گھریلو خواتین کو خیال رکھنا چاہیئے۔‘‘
شمسہ نے بتایا کہ وہ بیوٹیشن تو ہیں لیکن گھر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے بیوٹی پارلرکے لیے وقت نہیں نکال سکتی تھیں اسی لیے ہفتے کے چند روز وہ فری لانس میک اپ آرٹسٹ کے طور پرکام کرتی ہیں۔ ’’آج کل ویسے بھی انٹرنیٹ کی مدد سے گھر سے کام کرنا آسان ہو گیا ہےکلائنٹ میرا کام فیس بک پر دیکھ لیتے ہیں اور پھر مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔
شمسہ کے مطابق گھروں پر دلہنوں کو تیار کرنے کا رواج گوکہ پرانا ہے لیکن مصروفیت کے اس دور میں پھرسےیہ رواج زور پکڑتا جارہا ہے پھر وہ چاہے ایک موبائل نیل آرٹسٹ ہو یا موبائل مہندی آرٹسٹ یا پھرفری لانسر بیوٹیشن جیسے پیشے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور ’’پھر ہماری خدمات بیوٹی پارلرز کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہےمیرے پاس زیادہ تربکنگ شادی کی تقریبات کے لیے آتی ہیں ۔شادی کے دن کے لیے میری خدمات کے پیکج میں دلہن کا مکمل میک اوورکے ساتھ دلہن کی سہلیوں اور ماں کا میک اپ بھی شامل ہوتا ہے۔‘‘
شمسہ کا کہنا تھا کہ برطانوی معاشرے میں پلنے بڑھنے والی پاکستانی لڑکیاں اپنی شادی بیاہ کے حوالے سے زیادہ فرمائش نہیں کرتیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ، شادی کے روز وہ ایک مکمل روایتی دلہن کے روپ میں نظر آئیں۔ لیکن بعض اوقات دلہنوں کی عجیب وغریب فرمائش مخمصے میں ڈال دیتی ہے۔
’’مثلا ایک لڑکی نے فرمائش کی کہ اسے شادی کے روز ایک فیک یا ڈمی لک چاہیے میں نے اسے کافی سمجھایا کیونکہ اس کا رنگ گورا تھا اوراسے زیادہ فاؤنڈیشن کی ضرورت نہیں تھی بہرحال اسی کی خوشی پوری کرنی پڑی دلہن بننے کےبعد وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ کئی بارخواتین اپنے اصل نین نقش سےہٹ کر میک اپ کروانا پسند کرتی ہیں ایسے میں ’’ہم ان کےچہرے کو کنٹورنگ اور ہائی لائٹر کی مدد سے ایک نیا چہرہ دیتے ہیں یوں سمجھیئے کہ میک اپ کے ذریعے وقتی پلاسٹک سرجری کی جا سکتی ہے۔‘‘
شمسہ کے مطابق لندن میں کام کرنے کا تجربہ بہت مختلف ہے کیونکہ یہاں مختلف قومیتوں اور عقائد سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں۔ ان کے تجربے میں صومالی، عراقی، افغانی، انڈین، بنگلہ دیشی، مڈل ایسٹ اور افریقی ممالک کی خواتین سبھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دلہن کے لباس اور میک اپ کے حوالے سےہرجگہ کی روایات مختلف ہوتی ہیں لیکن پاکستانی میک اپ بہت حد تک عرب میک اپ سےمماثلت رکھتا ہے۔
شمسہ نے بتایا کہ وہ اپنا کام اپنے شوہر کی مدد کے بغیر جاری نہیں رکھ سکتیں اور ان ہی حوصلہ افزائی اور معاونت سے یہ شوق ان کا روزگار بنا گیا ہے۔