پاکستان کے دوسرے بڑے صوبہ سندھ میں گیس بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں گزشتہ بارہ روز سے سندھ اور بلوچستان کے 600 سے زائد سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی بند ہے جس کے باعث ان صوبوں بالخصوص سندھ میں ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گیس پریشر میں کمی کے باعث ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ گزشتہ بارہ روز کے دوران صرف چند گھنٹوں ہی کے لیے سی این جی اسٹیشنز کو گیس فراہم کی گئی۔ عہدیداران کے مطابق گیس کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والے کیپٹو پاور پلانٹس کو معاہدے کے تحت دسمبر سے فروری تک تین ماہ گیس کی فراہمی بند رکھی جانی تھی لیکن انہیں گیس کی فراہمی بحال ہے۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر شعیب خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس صورتحال سے سی این جی اسٹیشنز کے مالکان پریشان ہیں جبکہ عملہ بے روزگار ہو رہا ہے کیونکہ مالکان سی این جی اسٹیشنز کی بندش کے باعث اخراجات پورا نہیں کر پا رہے۔ دوسری جانب عوام ٹرانسپورٹ نہ ملنے پر سخت پریشانی میں ہیں جبکہ رکشہ، ٹیکسی اور پبلک بس ڈرائیورز بھی پریشان ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اب تک گیس کے سب سے زیادہ ذخائر سندھ سے برآمد ہوئے ہیں اور سندھ سے یومیہ تقریبا 2400 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا ہوتی ہے۔ تاہم سندھ حکومت کے مطابق اس وقت صوبے بھر میں گھریلو صارفین کو بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ اس معاملے پر سندھ حکومت کئی بار پہلے بھی وفاق سے احتجاج کر چکی ہے۔ ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ یہ بحران وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں اور نااہلی کا نتیجہ ہے۔ سرد موسم میں گیس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، لیکن حکوت کی جانب سے اس کے تدارک کے لئے کوئی قبل از وقت اقدام نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے گیس نایاب ہو چکی ہے۔
ادھر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے میں گیس کی کمی کا معاملہ چند روز قبل ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بھی اٹھایا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت گیس پر سب سے پہلا حق بھی صوبہ سندھ کے عوام کا ہے۔
دوسری جانب سندھ اور بلوچستان کو گیس فراہم کرنے والی سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان شہباز اسلام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت سسٹم میں 80 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی ہے جس میں سے ایم ایم سی ایف ڈی کی کمی موجودہ زخائر میں کمی اور 20 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سالانہ طلب بڑھنے کے باعث ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے منظور کردہ لوڈ مینجمنٹ پلان کے تحت گیس کی فراہمی میں سب سے مقدم گھریلو صارفین ہیں جبکہ سب سے کم ترجیح پر سی این جی اسٹیشنز ہیں۔ اس لئے گیس کی کمی پر سب سے پہلے سی این جی اسٹیشنز ہی بند کرنے پڑتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں دریافت ہونے والی دو نئی رحمان گیس فیلڈ اور عائشہ گیس فیلڈ سے پائپ لائن بچھانے کا کام جاری ہے جو جنوری میں مکمل ہونے کی توقع ہے جس کے بعد گیس پریشر میں بہتری کی توقع ہے۔
جبکہ حال ہی میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زائد تک اضافے کی تجویز حکومت کو بھیجی ہے جس سے حکومت کو 40 ارب روپے اضافی آمدن متوقع ہے۔ تجویز کے مطابق سوئی نادرن گیس پائپ کمپنی کے گھریلو صارفین کے لئے قیمتوں میں 13 فیصد، سوئی سدرن گیس پائپ کمپنی کے گھریلو صارفین کے لئے 8 فیصد اضافہ کیا جانا ہے۔
وہ صارفین جو 50 کیوبک میٹر سے زائد گیس ہر مہینے میں استعمال کرتے ہیں ان کے نرخوں میں 192 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ اسی طرح 100 کیوبک میٹرز سے زائد گیس استعمال کرنے والوں کو مزید 18 فیصد تک اضافی بل دینے کی تجویز دی گئی۔ اسی طرح کمرشل استعمال کے صارفین کو بھی 221 فیصد اضافی بل بھیجنے کی تجویز حکومت کو بھیجی گئی ہے۔ قانون کے تحت اس تجویز پر وفاقی حکومت کو 40 روز کے اندر کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ستمبر اور اس سے پہلے جولائی میں مجموعی طور پر گیس کی قیمتوں میں 300 فیصد سے زائد تک اضافہ کرچکی ہے۔