سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے اور احتساب کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کے بقول اس وقت ملک میں حکومت ہی نہیں ہے بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ نے لوگوں کو اکٹھا کیا ہوا ہے۔
منگل کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے دوران وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ مارچ یا اپریل میں نہیں بلکہ فوری طور پر عام انتخابات کی تاریخ چاہتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان لوگوں کو اکٹھا کیا ہوا ہے۔نواز شریف لندن میں بیٹھ کر فیصلے کر رہے ہیں جب کہ آصف زرداری اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ عمران خان نے فوری انتخابات کا مطالبہ لے کر جمعے کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کیا تھا، جو تاحال گوجرانوالہ پہنچا ہے۔ عمران خان اپنی تقاریر میں ڈی جی آئی ایس آئی اور فوجی قیادت کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
البتہ پاکستانی فوج کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ رواں برس مارچ میں فوجی قیادت کو غیر آئینی اقدامات پر اُکسانے کی کوشش کی گئی۔
ماضی میں ہونے والے لانگ مارچ اور ان میں اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ مداخلت کے سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال کا حل اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی ہے۔ لہذٰا جن کے پاس طاقت ہے انہیں فیصلہ کرانا چاہیے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اپنے دورِ اقتدار میں وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریف کرتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ’ایک پیج‘ پر ہونے کا ذکر کرتے تھے تو اختلافات کب پیدا ہوئے؟ اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ" وہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے، جیسا میں سمجھتا تھا، اور وہ احتساب کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ میں تو 26 سال سے کہہ رہا ہوں کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، ان کا خیال یہ نہیں تھا۔ وہ علیم خان کو وزیرِ اعلٰی پنجاب بنانا چاہتے تھے، باقی تو ہمارا کوئی اختلاف نہیں تھا۔"
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ "میری سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ میں احتساب نہیں کرا سکا، کیوں کہ نیب ہمارے ماتحت نہیں تھی ، اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں تھی تو میں کیسے احتساب کرتا۔ـ"
اپنی ممکنہ گرفتاری کے سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں، بلکہ اُنہوں نے تو اپنا بیگ بھی تیار کر لیا تھا۔
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا:"پاکستانی فوج کی بدنامی کا باعث میں نہیں بلکہ نواز شریف اور اُن کی بیٹی بنے تھے جنہوں نے جنرل فیض کا نام لے کر تنقید کی۔ میں نے تو فوج پر ہمیشہ تعمیری تنقید کی ہے۔"
خیال رہے کہ پاکستانی فوج سیاست میں مداخلت اور عمران خان کی حکومت گرانے کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
حال ہی میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ وہ رات کے اندھیرے میں ہم سے ملتے تھے اور دن میں ہمیں غدار اور میر جعفر اور میر صادق کہتے تھے۔
لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نےدعوی کیا تھا کہ رواں برس مارچ میں فوج سے یہ غیر آئینی مطالبہ کیا گیا کہ تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے فوج مداخلت کرے، اس کے بدلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر معینہ مدت تک کے لیے توسیع دینے کی بھی پیش کش کی گئی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ فوج نے بطور ادارہ یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سیاست میں کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔