کریمہ بی بی اپنے علاقے میں سیلاب کا پانی اترنے کے بعد واپسی کے لیے سامان باندھ رہی ہیں۔ وہ اگست سے اکتوبر تک خیمہ بستی میں امداد کی منتظر رہیں لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ وہ پھر سے زندگی شروع کرنے کی کوشش کریں گی۔
کریمہ کا تعلق سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی سے ہے جو حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے۔ کئی کئی فٹ سیلابی پانی جمع ہونے کی وجہ سے وہ اپنے علاقے سے دور ایک خیمہ بستی میں زندگی گزار رہی تھیں۔
کریمہ کے بقول، "ہمارے علاقے سے اب پانی کچھ کم ہوا ہے اس لیے اب واپس اپنے گھر جارہی ہیں۔ حکومت نے ہمیں نہ تو مکان بنانے کے لیے کچھ دیا اور نہ ہی تباہ فصل کے لیے کوئی امداد۔گھر جا کر زندگی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ "
کریمہ کی طرح اور بھی بہت سے خاندان موسمِ سرما شروع ہونے سے قبل اپنے علاقوں کو لوٹنے کے لیے بے قرار ہیں۔
چالیس سالہ فاطمہ بھی اب کراچی سے میر پورخاص میں اپنے گاؤں واپس جانے کی تیاری کرچکی ہیں۔ لیکن وہ اس بات پر مایوس ہیں کہ امداد کے جو دعوے متاثرین سے کیے گئے تھے وہ پورے نہ ہوسکے۔
فاطمہ کہتی ہیں " کسی نے بتایا ہے کہ دنیا نے بہت امداد بھیجی ہے پر میں تو اتنا ہی جانتی ہوں کہ میں پہلے کھلے آسمان تلے بچوں کو لے کر بیٹھی تھی اب ایک سرکاری خیمے میں بیٹھی ہوں۔ بچے بیمار پڑ چکے ہیں اور کئی کئی روز کا فاقہ ہے۔ ایسا اور کتنے دن بیٹھ سکتی ہوں؟ مجھے تو اب اپنے گاؤں جانا ہے جہاں پھر سے گھر بنا سکوں۔"
متاثرین اپنے علاقوں کو واپس لوٹ رہے ہیں لیکن اب بھی کئی سوالات تشویش کو جنم دیتے ہیں۔ کیا سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی خشک ہوچکا ہے؟ کیا متاثرین پھر سے اپنی تباہ شدہ زمینو ں پر کاشت کاری کر پائیں گے؟ کیا ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنے مکان کچے ہی سہی دوبارہ سے تعمیر کر پائیں گے؟
ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے وائس آف امریکہ نے امدادی کاموں میں پیش پیش تنظیموں اور افراد سے بات کی ہے۔ ان کے خیال میں متاثرہ علاقوں سے صرف پانی کے اتر جانے سے متاثرین کی زندگی واپس پہلے کی طرح نہیں ہو سکتی۔
سجاگ سنسار نامی غیر سرکاری تنظیم کے چیف ایگزیکٹو معشوق برہمانی کہتے ہیں ان کے رضاکاروں نے تین روز قبل دادو کی تحصیل جوہی کے گاؤں پیارو رستامانی کا دورہ کیا تھا جہاں اب بھی پانی موجود ہے۔
ان کے بقول کئی متاثرہ دیہات میں پانی کی سطح میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن اتنی کہ اس میں اب کشتی نہیں چل سکتی البتہ وہاں رہنے والوں نے ٹریکٹر کے ٹائر کی ٹیوب پر چارپائیاں رکھ کر آمدورفت کو ممکن بنا رکھاہے اور یہ حالات اب بھی بیشتر گاؤوں کے ہیں۔
کیا سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رسائی آسان ہے؟ اس پر معشوق کہتے ہیں خیر پور ناتھن شاہ، میہڑ اور جوہی میں کچے کے علاقے اب بھی دیگر علاقوں سے کٹ چکے ہیں جہاں راستے، سڑکیں تاحال تباہ ہیں۔
ان کے بقول، تحصیل جوہی کے دو راستے اب بھی اتنے زیرِ آب ہیں کہ وہاں جانے کے لیے کشتی کی ضرورت پڑتی ہے جس کی وجہ سے وہاں امداد کا پہنچنا بھی خاصا دشوار ہے۔
'ہمیں بحالی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی'
پڈعیدن کے اشوک کمار کو بھی اب آنے والے دنوں میں امداد ملنے کی امید نہیں۔ وہ بھی اب گاؤں کے دیگر افراد کی طرح اپنے خاندان کو کراچی سے واپس اپنے علاقے لے جانے کا ارادہ کر چکے ہیں۔
اشوک کہتے ہیں "لوگ اب سیلاب بھول چکے ہیں۔ اس لیے جو کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے اس کے لیے اب واپس جانا ہی واحد حل ہے۔"
ان کے بقول، "دو ہزار دس کے سیلاب کے بعد ہم نے تنکا تنکا جوڑ کر اپنا گھر کھڑا کیا تھا۔ کہیں سے قرض لیا تو اپنی کئی ضروریات کو مارا۔ لیکن اس سیلاب نے ہمیں جیتے جی ختم کردیا ہے۔"
معشوق برہمانی کے مطابق سیلاب متاثرین اپنے علاقوں میں پہنچ رہے ہیں لیکن ان کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ متاثرین کے پاس پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہیں جو ہینڈ پمپس لگے تھے ان میں اب سیلاب کا پانی آرہا ہے یا ریت ہے۔ یہاں تک کہ لوگ بدبودار پانی پینے پر مجبور ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ زمینیں سیلاب کے پانی کے سبب اگلی فصل کے قابل نہیں یہاں تک کہ ان متاثرہ خاندانوں کو اپنے ہی گاؤں میں بنا چھت کے رہنا پڑے گا۔
عوام اور این جی اوز کی جانب سے امداد میں کمی کیوں آئی؟
کراچی کی رہائشی شمائلہ سیلاب متاثرین کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے حلقۂ احباب سے راشن، کپڑے، پینے کا پانی اور ادویات اکھٹی کر کے متاثرہ علاقوں میں پہنچانے کا کام کرتی رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے حلقوں میں متاثرین کی مدد کے لیے اپیل کرتی ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی اور نوبیل ایوارڈ یافتہ ملالہ یوسف زئی پاکستان کا دور ہ کر چکی ہیں تو کیا حکومت کے پاس فنڈز نہیں آئے ہوں گے؟
شمائلہ کہتی ہیں بیرونِ ملک سے غریبوں کے نام پر آنے والی امداد بانٹ دی گئی ہے شاید اسی سوچ نے عام آدمی کو متاثرین کی مدد کرنے سے روک دیا ہے۔
فلاحی تنظیم الخدمت کے چیف ایگزیکٹو نوید علی بیگ کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کے لیے اکٹھی ہونے والی امداد محدود ہوچکی ہے۔ ان کے بقول پہلے جہاں یومیہ 25 سے 30 ٹرک امدادی سامان روانہ ہوتے تھے اب ان کی تعداد انتہائی کم ہوکرہفتے دس دن میں آچکی ہے۔
الخدمت کے مطابق جس طرح اگست کے اوائل میں شہری متاثرین کے لیے امدادی سامان بھجوا رہے تھے اس میں اب واضح کمی آ ئی ہے جس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو متاثرین کی بحالی کے لیےغیر ملکی امداد اور کثیر فنڈز مل چکے ہیں جس سے وہ ان متاثرین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے فوری اقدامات کرسکتی ہے۔
معشوق برہمانی کے مطابق اس بار سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے انہیں بڑے پیمانے پر اس طرح غیر سرکاری تنظیمیں کام کرتی نہیں دکھائی دیں جس طرح 2020 کے سیلاب میں نظر آئی تھیں۔ان کے بقول حکومت کی جانب سے بہت سی این جی اوز کو این او سی نہ دینا اور ان کے کاموں کو محدود کرنا بھی امدادی کاموں میں کمی کی بڑی وجہ ہیں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں حالیہ سیلاب سے تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے شامل ہیں۔
سیلاب کے باعث فصلیں، بنیادی صحت کے مراکز، اسپتال، اسکول، رابطہ سڑکیں، پل اور مکانات کی تباہی کے بعد متاثرہ افراد کی زندگی اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ جس کے لیے یونیسیف پوری دنیا سے امداد کی اپیل کرچکا ہے۔
اس وقت سندھ اور بلوچستان میں ہونے والے سیلاب کے نقصان سے نمٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف)، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگراموں سے 16.3 ارب ڈالر کا مددگار ہے۔
یہ امداد کب ملے گی اور کب متاثرین کی بحالی پر خرچ ہوگی اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے سر پر کھڑا موسمِ سرما اور آنے والے کئی سال کسی آزمائش سے کم نہیں ہوں گے۔