رسائی کے لنکس

کراچی میں ٹیلی کام کمپنی کے دو ملازمین کا ہجوم کے ہاتھوں قتل؛ تفتیش میں کیا سامنے آیا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ 28 اکتوبر کی صبح تھی, جب کراچی میں ایک نجی ٹیلی کام کمپنی ’موبی لنک‘ میں بطور انجینئر کام کرنے والے ایمن جاوید اپنے ڈرائیور اسحاق پنہور کے ہمراہ کمپنی کے دھوراجی طارق روڈ پر واقع دفتر سے سگنلز اور کوریج چیک کرنے کے لیے نکلے۔

آج ان کی منزل کراچی کا علاقہ مچھر کالونی تھا، جسے بعض لوگ شہر کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی قرار دیتے ہیں۔

چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے ابھی یہ افراد بنگالی محلے میں غیر سرکاری تنظیم کے اسکول کے قریب ہی پہنچے تھے کہ علاقہ مکینوں میں سے چند افراد نے گاڑی میں انجانے چہرے دیکھتے ہوئے شور مچا دیا کہ علاقے میں بچوں کے اغوا کار آ گئے ہیں۔

پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق کسی مخصوص ٹاور تک پہنچنے کے لیے انہوں نے وہاں موجود بچوں سے راستہ معلوم کیا تھا۔ ان افراد کو بچوں سے گفتگو کرتے دیکھ کر کچھ خواتین کو شک ہوا کہ شاید وہ ان بچوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ اس پر خواتین کی چیخ و پکار سے لوگوں نے ان دونوں کا راستہ روک لیا اور انہیں بغیر کسی تصدیق کے پہلے گاڑی کے اندر اور پھر گاڑی سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔

اس دوران ایمن اور اسحاق نے اپنے بارے میں لوگوں کو بتانے کی بھی کوشش کی۔ منتیں کیں اور مسجد میں بھی پناہ لینے کی کوشش کی لیکن وہاں کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔

مشتعل ہجوم نے ان کی گاڑی میں رکھا ہوا سامان، جس میں لیپ ٹاپ، موبائل فون، مختلف آلات اور میڈیکل شامل تھی،نکال کر لوٹ لی۔گاڑی کو توڑ پھوڑ کے بعد نذر آتش کر دیا گیا۔

مشتعل ہجوم میں شامل افراد نے ان دونوں افراد کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، اس دوران لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے وار کے ساتھ ساتھ بھاری پتھر مار مار کر انہیں زخمی کر دیا گیا۔

اس دوران علاقے میں پولیو ٹیم کو تحفظ پر مامور دو پولیس اہلکاروں نے بھی انہیں بچانے کی بھی بھرپور کوشش کی البتہ ہجوم میں لوگوں کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں اور بیچ بچاؤ کرنے والے کچھ لوگوں کی ایک نہ سنی۔

واقعے کے بعد گلیاں ویران ہیں۔
واقعے کے بعد گلیاں ویران ہیں۔

ہجوم میں سے کچھ لوگ انہیں اغوا کار سمجھ کر مارتے رہے جب کہ کچھ ڈاکو قرار دیتے رہے۔

پولیس کی تفتیش بتاتی ہے کہ ان لوگوں کے پاس کوئی اسلحہ تھا اور نہ ہی کوئی بے ہوش کرنے والا کیمیکل۔

سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ گاڑی میں موجود میڈیکل کِٹ میں رکھی گئی پائیوڈین کی دوا کو بعض لوگوں نے بے ہوش کرنے والی دوا سے تعبیر کیا اور انہیں موقع پر ہی سزا کے طور پر ڈنڈوں، لاٹھیوں اور پتھروں سے لہو لہان کرکے مار دیا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس کو جب واقعے کی اطلاع ملی تو اس وقت تک آس پاس کی گلیوں میں دو ہزار لوگ اکھٹے ہو چکے تھے۔ حالات کنٹرول کرنے کے لیے تین تھانوں کی نفری اور رینجرز بھی پہنچ گئی تھی البتہ اس وقت تک انسانی جانوں کا ضیاع ہو چکا تھا۔

ان کے مطابق واقعے کی تحقیقات شروع کی گئی تو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی فوٹیجز کے معائنے اور نشاندہی پر اب تک واقعے میں ملوث 60 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، جس میں سے 15 افراد کو باقاعدہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی ابتدا کس طرح ہوئی ابھی واضح ہونا باقی ہے۔

اس حوالے سے ایک ایسے شخص کو بھی گرفتار کیاگیا ہے جسے بے رحمانہ تشدد کے واقعے کا مرکزی کردار کہا جا رہا ہے۔

کراچی کی بندرگاہ کے قریب ماڑی پور روڈ سے منسلک مچھر کالونی میں زیادہ تر انتہائی غریب خاندان آباد ہیں، جن میں بڑی تعداد بنگالی، بہاری، بلوچی اور پٹھان شامل ہیں۔

پولیس کو بعض لوگوں نے بتایا کہ علی حسن نامی شخص کا ٹیلی کام کمپنی کے ملازمین سے پہلے بھی جھگڑا ہوا تھا اور اسے اس بات کا غصہ تھا کہ کمپنی کا ٹاور ان کے گھر کی چھت پر کیوں نہ لگا۔ اگرچہ حکام کا کہنا ہے کہ اس الزام کی اب تک کوئی تصدیق نہیں ہوئی لیکن وہ اس زاویے پر بھی تفتیش کر رہے ہیں۔

واقعے کے بعد جب وائس آف امریکہ نے علاقے کا دورہ کیا تو اندازہ ہوا کہ مقامی لوگ خوف زدہ تھے جب کہ گلیوں میں سناٹا نظر آیا۔

جس مقام پر مشتعل ہجوم نے دونوں ملازمین کو قتل کیا تھا، وہاں اب بھی خون آلود پتھر موجود ہیں اور ان پر مکھیوں کی بھنبھناہٹ جاری ہے۔

علاقے میں اکثر دکانیں بند ہیں۔ جھینگے صاف کرنے کا بڑی دکان بھی بند پڑی ہے جہاں علاقے کی خواتین کی بڑی تعداد کام کرکے کچھ پیسے کماتی تھی۔

علاقے کے ایک رہائشی عالم شاہ نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد پولیس نے درجنوں افراد کو گھروں سے لے کر گئی ہے، جس کی وجہ سے لوگ مختلف اندیشوں اور خوف کا شکار ہیں۔

شاہ عالم کا کہنا تھا کہ دوسری جانب اس واقعے کو بعض افراد کی جانب سے لسانی رنگ دیے جانے کی وجہ سے بھی لوگ خوف زدہ ہیں۔

مچھر کالونی میں ایک نجی اسکول کے منتظم شعیب احمد کہتے ہیں کہ علاقے میں پہلے سے یہ افواہ موجود تھی کہ اورنگی ٹاؤن میں ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران بچوں کو اغوا کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق کچھ لوگوں نے بے وقوفانہ عمل کے تحت غلط فہمی کی بنا پر ہی یہ افواہ پھیلائی کہ ایسے ہی مبینہ اغوا کار یہاں بھی گھوم رہے ہیں اور انہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس میں ملوث ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے ضرور عبرت کا نشان بنایا جائے لیکن اس دوران بے گناہ لوگوں کو پولیس کی جانب سے تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ اس واقعے کو لسانی رنگ دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ایک غریب بستی ہے، جہاں کئی مسائل اور جرائم کے باوجود بھی لسانی مسائل نہیں ہیں۔ اس لیے ایسا کرنے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

اس واردات میں ملوث 250 سے زائد افراد کو ایف آئی آر میں نامزد تو کیا گیا ۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہجوم کی جانب سے خود ہی کسی کو مجرم تصور کرکے اسے سزا دے دینا پولیس پر عوام کے اعتماد پر سوالیہ نشان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کو روکنے کے لیے ہجوم کے نظامِ انصاف کی حوصلہ شکنی اور قوانین پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی جب کہ پولیس کا عوام میں اعتماد بحال کرنا ہوگا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ ایسے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔

ادھر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے مچھر کالونی واقعے کا نوٹس لیے جانے پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے رپورٹ پیش کردی ہے۔

آئی جی سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 15 نامزد ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جب کہ چار ملزمان کی شناخت پریڈ بھی ہوچکی ہے اور دیگر ملزمان کی بھی شناخت پریڈ کرائی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیس کی تفتیش مکمل کرکے چالان متعلقہ عدالت میں جمع کرا کر ملزمان کو سخت سزا دلوائی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پوسٹس کے برعکس پولیس تحقیقات سے معلوم ہوا کہ مقامی الہٰی مسجد کے پیش امام نے واقعے میں مثبت کردار ادا کیا اور امام نے مقتولین کو تشدد سے بچانے کی بھی کوشش کی۔ علاقے میں افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ بچے اغوا ہو رہے ہیں مگر اس کے شواہد نہیں ملتے۔ گرفتار ملزمان میں بیشتر کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ موجود ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG