پاکستان میں ان دنوں گندم کے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں آٹا مہنگے داموں بھی دستیاب نہیں ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ایک پاکستانی اوسطاً 125 کلو گرام سالانہ گندم کھاتا ہے۔ اس سال حکومت نے ملک میں تقریباً تین کروڑ میٹرک ٹن گندم کی کھپت کا تخمینہ لگایا گیا ہے لیکن پیداوار کا تخمینہ 2 کروڑ 26 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔گندم کی طلب پوری کرنے کے لیے حکومت نے رواں مالی سال میں 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں سے 12 لاکھ ٹن گندم پاکستان پہنچ چکی ہے جب کہ مارچ کے اختتام تک بقیہ کھیپ بھی پہنچ جائے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں گندم کےوافر ذخائرموجود ہیں تو آٹے کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟
پنجاب میں سیاسی تناؤ کے باعث گندم کی کمی
وائس آف امریکہ کے لاہور میں نمائندے ضیاء الرحمان کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ایسےوقت میں ہو رہا ہے جب گندم کی نئی فصل بوئی جاچکی ہے۔ صوبے میں غیر سرکاری طور پر گندم پانچ ہزار روپے سے لے کر پانچ ہزار تین سو روپے فی من کے حساب سے دستیاب ہے۔
اس حساب سے 15 کلو والے آٹا کے تھیلے کی قیمت2100 سو روپے ہے یعنی فی کلو آٹا 140 روپے میں فروخت ہورہا ہے جب کہ چکی کا آٹا 160 روپے فی کلو تک بیچا جا رہا۔ حکومتی دعوؤں کے باجود پنجاب میں آٹے کی فراہمی اور قیمتوں کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکی ہے۔
پنجاب میں سرکاری اسکیم کے تحت سستے آٹے کی عام دکانوں پر قلت کے باعث عوام مہنگے نرخ پر مارکیٹ سے آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ آٹے کے کاروبار سے منسلک تاجر اور فلور ملز مالکان کے بقول وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان تناؤ کے باعث آٹے دستیابی میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔
ادھر پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کے ادارے پاکستان ایگری کلچر اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) کو فوری طور پر پانچ لاکھ ٹن گندم کی فراہمی کے لیے لکھا ہے۔ جب کہ صورت حال کے پیشِ نظر پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں آٹا ملوں کا کوٹہ بھی بڑھا دیا ہے۔
ترجمان محکمۂ خوراک کے مطابق پنجاب بھر میں فلور ملوں کا کوٹہ بڑھا کر 26 ہزار ٹن سستی گندم جاری کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب ضلعی انتظامیہ لاہور نے شہر میں آٹے کی سپلائی کی مانیٹرنگ کے لیے ریونیو فیلڈ اسٹاف کو فلور ملز میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈی سی لاہور کے مطابق پٹواریوں اور تحصیل داروں کو فلور ملز کی مانیٹرنگ کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
ملک بھر میں آٹے کے بحران کی ذمے دار سندھ حکومت؟
سندھ میں بھی آٹا مہنگے داموں فروخت کیا جارہا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے 65 روپے فی کلو آٹے کے اسٹالز پر بھی رش دیکھنے میں آرہا ہے جب کہ مارکیٹ میں چکی کے آٹے کی قیمت 150 روپے فی کلو تک جاپہنچی ہے۔
اس بار ہدف سے کم گندم خریدنے کے باعث سندھ کی صوبائی کابینہ نے پاسکو سے تین لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کی منظوری دی ہے تاکہ مارچ کے اوائل میں نئی فصل کی کٹائی تک صوبے کی گندم کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ خوراک کو ہدایت کی ہے کہ گندم کی فصل 23-2022 کی خریداری کے لیے فروری کے اوائل سے ضروری انتظامات کیے جائیں تاکہ خریداری کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔
تاہم وفاقی حکومت اور اجناس کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کسی حد تک ذمہ داری سندھ حکومت پر بھی عائد کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے غذائی سیکیورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نےدیگرصوبوں اور وفاق سے مشاورت کے بغیر گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے تمام ضروری غذائی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے ذمے دار ہیں اور وفاق اس حوالے سے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
لیکن سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ صوبائی کابینہ نے سیلاب سے متاثرہ مقامی کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی اور انہیں معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے زیادہ گندم اگانے اور قحط جیسی صورت حال سے بچنے کے لیے گندم کی امدادی قیمت چار ہزار روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی تھی۔
صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ بیرون ملک سے درآمد شدہ گندم 9 ہزار روپے فی من تک کے حساب سے خریدی جارہی ہے تو ان کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانا چاہیے جو سیلاب کے پانی سے متاثرہ اپنی زمین کو دوبارہ قابلِ کاشت بنا رہے ہیں۔
حکومت کے مطابق گندم کی زیادہ کاشت نہ کی گئی تو آنے والے سیزن میں صوبے کو قحط جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آٹے کے بحران کی وجہ؟
غذائی امور کے ایک ماہر شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ گندم کی کٹائی کا سیزن شروع ہونے سے بہت پہلے ہی امدادی قیمت میں اضافے کے اعلان سے مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ اس کے بعد حکومت نے 515 ڈالر فی میٹرک ٹن کے حساب سے مہنگی گندم خریدی جو درآمد کرنے کے بعد سو روپے فی کلو سے بھی زائد کی پڑ رہی ہے۔ظاہر ہے اس کا اثر مارکیٹ پر آنا ہی تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے مقامی اور غیر ملکی گندم زیادہ قیمت پر خریدی جس سے گندم کی قیمت بڑھی اور پھر زیادہ منافع خوری کے لیے ذخیرہ اندوزی کی گئی جس سے قیمتیں اب 150سو روپے سے تجاوز کرتی جارہی ہیں۔ جب کہ صوبائی حکومتیں قیمتوں کی نگرانی کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں۔
ادھر وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت کے دور میں گندم کی پیداوار کم ہوئی۔ اب اربوں ڈالر سے گندم خریدنی پڑ رہی ہے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ زراعت پر ملک کی معیشت کا بھاری انحصار ہونے کے باوجود ملک کے زرعی رقبے میں بتدریج کمی آرہی ہے۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ملک میں 2 کروڑ 20 لاکھ ایکڑ سے بھی زائد رقبے پر گندم کاشت کی جاتی ہے۔ لیکن گزشتہ سال اس کی کاشت کے علاقے میں 2.1 فی صد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جب کہ فی ہیکٹر پیداوار میں بھی کمی آرہی ہے۔
خیبرپختونخوا میں آٹے کے لیے طویل قطاریں
آٹے کے قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں پشاور میں مقامی نانبائی ایسوسی ایشن نے روٹی کی قیمت میں دس روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔
سرکاری نرخ پر آٹے کے 20 کلوگرام تھیلے کے حصول کے لیے مختلف شہروں اور قصبوں میں لوگ دن بھر قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔
عام بازار میں اب 20 کلو آٹے کا تھیلا تین ہزار روپے سے زائد میں فروخت کیا جا رہا ہے جب کہ سرکاری طور پر اس کی قیمت 1320 روپے مقرر کیا گیا ہے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آٹا نایاب
ملک کے دیگر شہروں کی طرح کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی گندم اور آٹے کا بحران جاری ہے۔ وائس آف امریکہ کے مرتضیٰ زہری نے بتایا کہ پیر کی صبح کوئٹہ کے ہاکی چوک پر حکومت کی جانب سے سستا آٹا نہ ملنے پر شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں خواتین اور بزرگ شہری بھی شامل تھے۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر شہروں میں 20 کلو آٹے کی قیمت 2 ہزار روپے سے بڑھ کر 2800 سے 3000 ہزار روپے تک جاپہنچی ہے۔
صوبائی وزیر خوراک بلوچستان زمرک خان نے ہفتے کی رات ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ محکمٔہ خوراک کے پاس اس وقت گندم کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے۔ بلوچستان اس وقت ایک سنگین بحران کا شکار ہے اور ایسے میں ہم نے وفاق، پنجاب اور صوبہ سندھ سے امداد کی اپیل کی ہے مگر انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ اور پنجاب نے بلوچستان کو گندم کی فوری فراہمی سے انکار کیا ہے۔
زمرک خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو اس وقت 6 لاکھ بوری گندم کی فوری ضرورت ہے جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نےوعدے کے باوجود تاحال 6 لاکھ بوری گندم فراہم نہیں کی ہے۔
ان کے بقول، وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو چار لاکھ آٹے کے تھیلے دیے لیکن بلوچستان کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا گیا جو کہ قابل افسوس بات ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت پر اضافی بوجھ
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سیکریٹری خوراک منصور قادر ڈار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 42 لاکھ آبادی والے اس خطے میں گندم کی ضرورت ساڑھے پانچ لاکھ ٹن ہے۔ وفاقی حکومت اس میں سے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم فراہم کرتی ہے جب کہ ایک لاکھ میٹرک ٹن گندم کشمیر میں پیدا ہوتی ہے اور مزید ایک سے ڈیڑھ لاکھ ٹن پرائیویٹ سیکٹر سے خریدی جاتی ہے۔
ان کے مطابق موجودہ حالات میں 20 کلو آٹے کے سرکاری نرخ 1280 روپے ہیں جب کہ پرائیویٹ سیکٹر میں یہ 2600 روپے ہے۔
سیکریٹری خوراک کا کہنا ہے کہ اس قدر واضح فرق ہونے کی وجہ سے سرکاری گندم پر بہت زیادہ دباؤ دیکھا جارہا ہے اور حکومت ڈیمانڈ پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اس دوران کشمیر کی حکومت پر 10 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ چکا ہے۔
منصور قادر کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے ریاستی حکومت کو 1 لاکھ ٹن گندم درکار ہے تاکہ اس کمی کو پورا کیا جاسکے۔
گلگت بلتستان میں آٹے کی قلت پر احتجاج
ادھر گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی نے مختلف مسائل سمیت ریجن میں آٹے کی کم سپلائی پر احتجاج کیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔
ایکشن کمیٹی کے چئیرمین نجف علی نے وائس آف امریکہ کے نذر الاسلام کو بتایا کہ گلگت بلتستان میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے سبسڈائزڈ آٹے کی فراہمی کی جارہی تھی۔ تاہم عمران خان کے دور حکومت میں آٹے کے بجائے اس کی خریداری کے لیے گلگت بلتستان حکومت کو آٹھ ارب روپے دیے گئے تھے۔
ان کے مطابق اس رقم سے یوکرین سے درآمد کی گئی گندم گلگت بلتستان کو دی گئی جو غیر معیاری نکلی اور اس پر کافی احتجاج بھی کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال وفاق کی جانب سے گندم کی خریداری کے لیے ملنے والی رقم کے ساتھ گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ کو کم کرکے مزید 3 ارب روپے بھی گندم منگوانے میں استعمال کیے گئے لیکن اس بار گلگت بلتستان کی حکومت کے پاس رقم کم ہونے کی وجہ سے خریداری کم ہوئی ہے جس سے علاقے میں گندم کی قلت ہوگئی۔
ایکشن کمیٹی کا اب یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ رقم کے بجائے علاقے کے لیے گندم کی 20 لاکھ بوریوں کا سبسڈائزڈ کوٹہ دوبارہ بحال کیا جائے۔