رسائی کے لنکس

چیئرمین پی ٹی آئی کو عمران خان سے مشاورت کی اجازت؛ کاغذاتِ نامزدگی کی اسکروٹنی جاری


اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین گوہر علی خان کو عمران خان سے انتخابی امیدواروں کے حوالے سے مشاورت کی اجازت دے دی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نگراں حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر مبینہ پابندیوں اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات پر ریمارکس دیے ہیں کہ کیا نگراں حکومت انتخابات کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے؟

دوسری جانب بیرسٹر گوہر علی خان نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ اگر صاف و شفاف انتخابات نہ ہوئے تو ملک ڈی ریل ہو جائے گا۔ بلے کا نشان واپس لینے کا مقصد ہے کہ پی ٹی آئی شفاف انتخابات میں سامنے نہ آ سکے، بلا صرف سیاسی نشان نہیں بلکہ 70 فی صد عوام کے امنگوں کا ترجمان ہے۔

بیرسٹر گوہر اور دیگر وکلا کی جانب سے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات اور مشاورت سے متعلق درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان کو عمران خان سے مشاورت کی اجازت دی جائے۔ درخواست پر عدالت نے حکم دیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی نگرانی میں بانی پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی ملاقات کروائی جائے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ انتخابات کے لیے مشاورت کی اجازت بنیادی حق ہے۔ انتخابات میں نگراں حکومت کو غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ سابق اور موجودہ چیئرمین پی ٹی آئی کی مشاورت میں مخالفت سے نگراں حکومت کی غیر جانب داری پر سوال اٹھتا ہے۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عدالت میں پیش ہوئے۔

کمرۂ عدالت میں پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے مؤقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کی 700 ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے مشاورت درکار ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے درخواست کے قابلِ سماعت ہونے کی مخالفت کرنے پر عدالت نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا سپریم کورٹ سے آنے والا اضافی نوٹ آپ کے لیے کافی نہیں تھا؟ سپریم کورٹ کے بعد کیا مجھ سے بھی اپنے خلاف نوٹ لکھوانا چاہتے ہیں؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل آفس نگراں حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کو غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ نگراں حکومت کے زیرِ نگرانی خوفناک نظام چل رہا ہے کہ انتخابی مشاورت کی اجازت بھی نہیں۔ نگراں حکومت کیا انتخابات کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے؟ بعد ازاں عدالت نے مشاورت کی اجازت دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

بیرسٹر گوہر علی خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد وہ جلد عمران خان سے ملاقات کریں گے جس میں ملک بھر میں انتخابی امیدواروں کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک یہ صورتِ حال تھی کہ ہمیں اڈیالہ جیل میں کوئی کاغذ لے جانے کی اجازت نہ تھی اور کیس فائلز کے بھی تمام کاغذات کا جائزہ لیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہم نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور اب ہم تمام امیدواروں کی فہرستیں لے کر جائیں گے اور ٹکٹس دینے کے حوالے سے عمران خان سے مشاورت کے بعد ٹکٹوں کی تقسیم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان لیا گیا تو 227 نشستیں کس کے پاس جائیں گی؟ انتخابات کے بعد ہارس ٹریڈنگ ہوئی تو ذمہ دار کون ہو گا؟ یہ اپنی پارٹی میں پوزیشن صرف اپنے رشتہ داروں کو دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دیے جانے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ میں تعطیلات کی وجہ سے کوئی بینچ دستیاب نہیں اور امکان ہے کہ دو جنوری کے بعد یہ کیس سپریم کورٹ میں بھی فکس ہو سکتا ہے۔

کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی جاری

دوسری جانب ملک بھر میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی طرف سے جمع کروائے گئے کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی کا عمل جاری ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مراد سعید کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔ مراد سعید نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چار سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے جنہیں آج آر او نے مسترد کردیا ہے۔

سوات میں ہی پی ٹی آئی کے ڈویژنل صدر فضل حکیم کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے۔ فضل حکیم پی کے 6 سے 2018کے الیکشن میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

ان کے کا غذات مسترد کرنے کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ مختلف مقدمات میں ملوث ہونے کی وجہ سے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ہی ایک اور امیدوار حلقہ پی کے 11 کے ملک گل ابراہیم خان کے کاغذات مسترد کردیے گئے ہیں۔

دیر بالا سے پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار صاحبزادہ صبغت اللہ کے این اے پانچ کے کاغذات بھی مسترد ہوئے ہیں، جن کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ کاغذات پولیس کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کیے گئے ہیں، صاحبزادہ صبغت اللہ نے کاغذات مسترد ہونے کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جہاں زیادہ تر پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہیں پی ٹی آئی کے لاہور سے امیدوار سینیٹر اعجاز احمد چوہدری کے کاغذات نامزدگی این اے 127 لاہور سے منظور کر لیے گئے ہیں۔


مخصوص نشستوں کے الیکشن شیڈول میں تبدیلی

اس کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے لیے انتخابی شیڈول میں تبدیلی کردی ہے جس کے مطابق مخصوص نشستوں پر کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی تاریخ 13 جنوری تک بڑھا دی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن 10 جنوری 2024 کو اپیلوں پر اپیلیٹ اتھارٹی کے فیصلوں کا آخری روز ہو گا اور‏ 11 جنوری 2024 کو امیدواروں کی نظرثانی فہرست جاری کی جائے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ 12 جنوری 2024 کو کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ ہو گی اور‏ 13 جنوری 2024 کو امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہوں گے ‏جس کے بعد 8 فروری 2024 بروز جمعرات کو عام انتخابات ہوں گے۔

خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کی صوبائی نشستوں کے لیے بھی اسی شیڈول کا اطلاق ہوگا۔

فورم

XS
SM
MD
LG