انٹرنیٹ پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے وائٹ ہاؤس اور قانون نافذ کرنے والے اعلیٰ ترین حکام نے جمعہ کو سان جوز کیلی فورنیا میں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کی۔
ملاقات کے شرکا کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ سماجی میڈیا پر داعش اور دیگر کے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہے۔ اٹارنی جنرل لوریتا لِنچ، ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمس کومی اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس جیمس کلپر اور صدر اوباما کے چیف آف اسٹاف اور ان کے اعلیٰ مشیر برائے انسداد دہشت گردی موجود تھے۔
اجلاس میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہوں کی جانب سے اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ کس طرح دہشت گرد ڈیٹا کو خفیہ رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے انٹرنیٹ کے ذریعے بھرتیوں اور انتہاء پسند خیالات کے پھیلاؤ کو کس طرح مشکل تر بنایا جا سکتا ہے۔
اجلاس کا ایجنڈا کئی اداروں تک پہنچا، جنھیں اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کہا گیا آیا کس طرح ٹیکنالوجی کمپنیاں متبادل مواد کی مدد سے داعش کے لیے مشکل پیدا کرسکتی ہیں۔
صدر اوباما نے دسمبر میں اپنے خطاب میں اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ وہ آن لائن دہشت گردوں کا سامنا کریں گے اور کہا تھا کہ وہ اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی اور قانون نافذ کرنے والوں پر زور دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے دہشت گردوں کے لیے انصاف کے کٹہرے سے بچنا مشکل تر بنا دیں گے۔
ایک اعلیٰ انتظامی افسر نے جمعہ کو تصدیق کی کہ یہ اجلاس اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت انتظامیہ اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے اداروں کے درمیان مذاکرات کے لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے، پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر مل کر ٹیکنالوجی کی مدد سے دہشت گردی کا مقابلہ کریں۔
ٹیکنالوجی کمپنیاں جن میں ایپل، گوگل، فیس بک، مائیکروسافٹ، ٹیوٹر اور لنکڈ اِن شامل ہیں، کہنا تھا کہ وہ پرتشدد مواد پہلے ہی ہٹادیتے ہیں۔ تاہم، وہ عوام کی آزادی اور اظہار رائے میں مداخلت پر ہچکچاہٹ کا بھی شکار تھے۔
ماہ دستمبر کے دروان جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے تحت انتہا پسندی پر کئے گئے ایک مطالعے کے دوران محققین نے بتایا کہ بنیاد پرستی اور داعش سے ہمدردی کے خاتمے میں میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ان محقیقن نے اشارہ دیا ہے کہ 300 امریکی میڈیا پر انتہا پسندی کے فروغ میں سرگرم عمل ہیں اور ہم خیال لوگوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔