عہدِ حاضر میں اردو کے نام ور ادیب، نقاد اور محقق پروفیسر گوپی چند نارنگ 91 سال کی عمر میں امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں 15 جون کو انتقال کر گئے۔
پوری اُردو دنیا میں شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کا طوطی بولتا تھا۔ اردو ادیبوں اور ناقدوں کا کہنا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کے جانے کے بعد گوپی چند نارنگ کا جانا اردو زبان وادب کا ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی تقریباً نا ممکن ہے۔
وہ نہ صرف اردو کے ادیب و محقق تھے بلکہ اردو تہذیب کے بھی جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ انہیں اردو سے عشق تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کرکے جگہ جگہ اردو زبان و ادب کی ترویج کی۔ اسی لیے ان کو سفیر اردو بھی کہا جاتا تھا۔
انہیں صرف برصغیر پاک و ہند میں نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور دیگر زبانوں کے ادبی حلقوں میں بھی انہیں وہی پذیرائی حاصل تھی جو اردو حلقوں میں حاصل تھی۔
گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931 کو بلوچستان کے ضلع دُکی میں پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ سے تھا۔
ان کے والد دھرم چند نارنگ مظفر گڑھ میں سرکاری ملازم تھے۔ وہ فارسی اور سنسکرت کے اسکالر اور قلم کار تھے۔
گوپی چند نارنگ اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنی والدہ کے ساتھ 1947 میں دہلی آگئے تھے۔ جب کہ ان کے والد ملازمت سے سبکدوشی کے بعد 1956 میں دہلی آئے۔
گوپی چند نارنگ نے دہلی کالج سے اردو میں ایم اے کیا پھر وہیں سے پی ایچ ڈی کی۔ اس کے بعد انہوں نے 1957 میں دہلی کے سینٹ اسٹیفنز کالج سے درس و تدریس کا آغاز کیا۔ اُنہوں نے 1959 میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچررشپ شروع کی۔
وہ 1961 سے 1974 تک شعبہ اردو کے ریڈر کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی دوران 1963 سے 1965 تک وسکونسن یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ 1969 میں منی سوٹا یونیورسٹی منی ایپلس اور 1968 سے 1970 کے دوران پھر وسکونسن یونیورسٹی کے وزٹنگ پروفیسر رہے۔
وہ 1974 سے 1981 تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اُردو میں پروفیسر جب کہ 1984 اور 85 میں اُردو فاصلاتی کورس کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
وہ 1981 اور 1982 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قائم مقام وائس چانسلر بھی رہے۔ اس کے بعد 1986 میں دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں پروفیسر ہو گئے۔ 1987 سے 1990 کے درمیان نیشنل فیلو یو جی سی اور 1997 میں ناروے کی اوسلو یونیورسٹی اور راک فیلر یونیورسٹی اٹلی کے وزٹنگ فیلو کے عہدے پر فائز رہے۔
دہلی یونیورسٹی سے سبکدوشی کے بعد 1996 سے 1999 تک اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیئرمین رہے۔ انہیں 2002 میں دو سال کے لیے اندرا گاندھی فیلو شپ بھی ملی۔ وہ 1996 سے 1999 تک غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے نائب صدر اور 1998 سے 2000 تک قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے چیئرمین بھی رہے۔
انہیں فروری 2002 میں ساہتیہ اکادمی کا صدر منتخب کیا گیا۔ حالانکہ ہندی کی مقبول اور مایہ ناز ادیبہ مہاشویتا دیوی بھی صدارت کی امیدوار تھیں لیکن جنرل کونسل کے ارکان نے نارنگ کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس طرح ساہتیہ اکیڈمی کی تاریخ میں پہلی بار کوئی اردو ادیب و نقاد اس کا صدر ہوا۔ ساہتیہ اکیڈمی کا کام 24 زبانوں کی ترویج و اشاعت ہے۔
گوپی چند نارنگ 20 فروری 2008 تک ساہتیہ اکیڈمی کے صدر کے منصب پر رہے۔ اس دوران انہوں نے ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے جتنے اردو سمیناروں کا انعقاد کروایا وہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔ انہوں نے اس منصب پر رہتے ہوئے متعدد اردو ادیبوں اور شاعروں کو ساہتیہ اکیڈمی کے ایوارڈز دلوائے۔
گوپی چند نارنگ کے تخلیقی سفرکا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ کوئٹہ شہر کے ہفتہ وار اخبار ’بلوچستان سماچار‘ میں اس وقت شائع ہو ا تھا جب وہ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔
جب 1947 میں وہ دہلی آئے تو یہاں پر بھی ان کے متعدد افسانے ’بیسویں صدی‘ اور ’ریاست‘ جیسے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ 1953 کے بعد گوپی چند نارنگ نے افسانہ نگاری ترک کرکے تحقیق و تنقید کے میدان میں قدم رکھا۔
ان کا اوّلین مضمون ’اکبر الٰہ آبادی سخن فہموں اور طرفداروں کے درمیان‘ رسالہ ’نگار‘ میں جون 1953 میں شائع ہوا۔
ان کی پہلی تصنیف ’ہندوستانی قصّوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ ہے جو پہلی بار 1959 اور دوسری بار 1961 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب پر ان کو 1962 میں ’غالب ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔
گوپی چند نارنگ کی 2014 میں ’غالب : معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات‘نامی تحقیقی اور تنقیدی کتاب شائع ہوئی۔ اسے غالب شناسی کے حوالے سے بہت اہم کتاب سمجھا جاتاہے۔ ان کی کتاب ’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘ کو بھی کافی شہرت حاصل ہوئی۔
ان کی تصنیفات کی تعداد 60 سے زائد ہے جن میں اردو کے علاوہ انگریزی اور ہندی تصنیفات بھی شامل ہیں۔ ان کی متعدد کتابوں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
لیکن ان کو سب سے زیادہ شہرت ان کی کتاب ’ساختیات پس ساختیات اور مابعد جدیدت‘ سے حاصل ہوئی۔ دراصل اس میں تین کتابیں ہیں اور اسی سے مابعد جدید نقاد کی حیثیت سے پوری دنیا میں ان کو جانا گیا۔ شمس الرحمن فاروقی کو جدید نقاد تو گوپی چند نارنگ کو مابعد جدید نقاد کی حیثیت حاصل تھی۔
گوپی چند نارنگ بیسویں صدی کے آخری 25 برسوں اور اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک اردو زبان و ادب کے افق پر چھائے رہے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں بھارت، پاکستان اور دیگر ممالک میں بھی ایوارڈ و اعزاز سے نوازا گیا۔
بعض اردو ادیبوں کا کہنا ہے کہ علمی و ادبی دنیا میں ان کی قدر و منزلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں جتنے ایوارڈز ملے اتنے آج تک کسی بھی زبان و ادب میں کسی بھی شخصیت کے حصے میں نہیں آئے۔
بھارتی حکومت نے انہیں اعلیٰ سول ایوارڈ پدم شری اور پدم بھوشن سے نوازا۔ پاکستان میں بھی انہیں اعلیٰ سول ایوارڈ ستارہ امتیاز دیا گیا۔ وہ جتنے بھارت میں مقبول تھے اتنے ہی پاکستان میں بھی مقبول تھے۔
اس کے علاوہ انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، غالب ایوارڈ، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ، میر ایوارڈ، صدر پاکستان کی جانب سے اقبال صدی طلائی تمغہ اعزاز اور مختلف اردو اکیڈمیوں اور قومی و بین الاقومی اداروں کے ایوارڈ شامل ہیں ان کی تعداد 50 سے ز ائد ہے۔
'میں اردو کا خادم ہوں'
انہوں نے اپنی تصنیف ’جدیدت کے بعد‘ میں اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں اردو کا خادم ہوں۔ اردو میری ضرورت ہے، میں اردو کی ضرورت نہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو کسی بھی کام کو شہرت کے لیے نہیں کرتے۔ اگر لوگ میری باتوں پر دھیان دیتے ہیں یا جو کچھ میں کہتا ہوں اس کا کچھ نہ کچھ اثر ہوتا ہے تو یہ میرے قارئین کی محبت ہے۔
ان کے مطابق اردو سے میرا معاملہ عشق کا ہے اور عشق میں سود و زیاں نہیں ہوتا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے امور میں میری مخالفت بھی ہوتی ہے اور کئی بار بغض و عناد کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
گوپی چند نارنگ کے انتقال پر اردو دنیا سوگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ادیبوں، ناقدوں، محققوں اور شاعروں کی جانب سے خراج عقیدت کی بھرمار ہے۔
اردو ادب کا نقصان
گوپی چند نارنگ کے قریبی سمجھے جانے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں شعبہ اردو کے سابق صدر اور دہلی اردو اکیڈمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر خالد محمود کہتے ہیں کہ نارنگ صاحب کے انتقال سے اردو زبان و ادب کا زبردست نقصان ہوا ہے۔ ان کے انتقال سے اردو ادب کا موضوع متاثر ہوا ہے۔
ان کے مطابق جن لوگوں نے اردو کو سربلند کیا ہے ان میں نارنگ صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ انہوں نے برصغیر ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ اور پوری دنیا میں اردو کا اجالا پھیلایا۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں اگر کسی اردو ادیب، ناقد اور محقق کا نام لیا جاتا ہے تو وہ بلا شبہ نارنگ صاحب کا نام ہے۔
انہوں نے کہا کہ نارنگ صاحب کے انتقال سے اردو کے ایک متحرک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ وہ صرف ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ اپنے آپ میں اردو کا ادارہ تھے۔
'وہ اردو تہذیب کے نمائندے تھے'
ساہتیہ اکیڈمی کے ایگزیکٹو بورڈ کے سابق رکن اور اردو ایڈوائزری کمیٹی کے کنونیئر معروف شاعر و صحافی اور منظوم سیرت ’لولاک‘ کے خالق اور نارنگ صاحب کے قریبی چندر بھان خیال گوپی چند نارنگ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ صرف اردو کے ادیب و نقاد نہیں تھے بلکہ اردو تہذیب کے بھی نمائندہ تھے۔
ان کے مطابق نارنگ صاحب ایک ادبی نظریہ ساز تھے۔ انہوں نے تنقید میں ایک نیا نظریہ دیا جس کو پوری دنیا میں شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ شریف انسان تو تھے ہی بہت معاون بھی تھے۔
چندر بھان خیال بتاتے ہیں کہ نارنگ صاحب کے شاگردوں کی تعداد بے شمار ہے۔ جن میں سے کئی کو انہوں نے ملازمت دلوائی۔ ان کے مطابق خود ان کے پاس ایسے ساٹھ ستر افراد کی فہرست ہے جن کو انہوں نے ملازمت دلوائی۔
ان کا کہنا ہے کہ گوپی چند نارنگ کا انتقال صرف ان کے اہل خانہ کا نہیں بلکہ پوری اردو دنیا کا نقصان ہے اور ایسا نقصان ہے جس کی تلافی جلد ممکن نہیں ہے۔