رسائی کے لنکس

'حکومت عوام کے چائے کے کپ پر نظر رکھے ہوئے ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر رہنما احسن اقبال نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں عوام کو کم چائے پینے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا یہ مشورہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مہنگائی کی وجہ سے عوام کو کفایت شعاری اختیار کرنے کا یہ کوئی پہلا مشورہ نہیں۔ اس سے قبل بھی ماضی میں سیاسی رہنما مہنگائی کم کرنے کے لیے عوام کو مختلف مشورے دیتے رہے ہیں۔

گزشتہ برس پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے عوام کو مشورہ دیا تھا کہ عوام چائے میں کم چینی ڈالیں اور روٹی بھی کم کھائیں۔

عوام کو خرچ کم کرنے کے مشورے صرف پاکستان ہی میں نہیں، بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی دیے جاتے رہے ہیں۔

گزشتہ برس شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے ملک میں جاری خوراک کی قلت کے پیشِ نظر عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ 2025 تک کھانا کم کھائیں۔

اسی طرح 2015 میں ایک روسی سیاست دان الیا گیفنر نے کہا تھا کہ "اگر آپ کے پاس پیسے کی کمی ہے تو آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم روسی شہری ہیں۔ ہم نے بھوک اور سردی کا مقابلہ کیا ہوا ہے، ہمیں اپنی صحت کے بارے میں خیال کرنا چاہیے اور کم کھانا چاہیے۔"

یاد رہے کہ احسن اقبال نے منگل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام چائے کا استعمال ایک یا دو کپ کم کردیں۔ انہوں نے یہ مشورہ ملک کے بڑھتے درآمدی بل کے پیشِ نظر دیا تھا۔

معاشی امور پر نظر رکھنے والے ادارے 'آبزرویٹری آف اکنامک کمپلیکسٹی' کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان دنیا بھر میں چائے درآمد کرنے والے ممالک میں سرِفہرست تھا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان نے سن 2020 میں 64 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی چائے درآمد کی تھی۔

پاکستان کے پاس اس وقت زرِمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر سے بھی کم ہو چکے ہیں جو ملک کی محض 45 روز کی درآمدی بل کے لیے کافی ہے۔

احسن اقبال کے حالیہ مشورے کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ منگل کو ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ '#چائے_کو-عزت_دو' ٹرینڈ کرتا رہا۔البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات کا معاشی پالیسی یا گورننس کے امور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ "مفتاح نے کہا پیٹرول چھوڑ دو احسن اقبال نے کہا چائے چھوڑ دو کچھ دن بعد نالائق اعلیٰ کہے گا کہ پاکستان چھوڑ دو!"

عدیل احسن نامی صارف نے لکھا کہ "احسن اقبال فرماتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) ہی واحد قوت ہے جو پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتی ہے لیکن یہ بتانا بھول گئے تھے کہ یہ کام عوام کے پیٹ پر پتھر باندھ کر کیا جائے گا، آج جب دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے ایسے دور میں پاکستانی حکومت عوام کے چائے کے کپ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔"

حفضہ فیاض نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ "احسن اقبال نے اپیل کی تھی کہ چائے بند کردو تاکہ امپورٹ بل کم ہوسکے۔ بدھ کے روز پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 24 روپے بڑھنے پر حفصہ نے احسن ا قبال کو مشورہ دیا کہ "آپ عوام سے اپیل کر دیں کہ پیٹرول استعمال کرنا بند کردیں، البتہ پیٹرول پی لیں اور جنت کی سیر کو نکل جائیں۔"

جہاں احسن اقبال پر ٹوئٹر پر طنز کے تیر چلتے رہے وہیں کچھ لوگ ان کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔

معروف کالم نگار اور ٹی وی مبصر ہارون الرشید نے ٹویٹ کی کہ "احسن اقبال کا چائے کم پینے کا مشورہ بالکل درست ہے۔ زیادہ چینی اور چائے نقصان دہ ہے۔ زرِ مبادلہ بھی ضائع ہوتا ہے۔ کسی رائے کو محض اس لیے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ رائے دینے والا آپ کو پسند نہیں۔"

معاشی اور سیاسی امور کے ماہر یوسف نذر نے احسن اقبال کی ٹویٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کی اشیا اور خدمات کو ملا کر کل درآمدات 88 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ جب کہ مالی سال 22-2021 کے دوران چائے کی درآمدات 60 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ چائے کا درآمدی بل کافی زیادہ ہے لیکن یہ پاکستان کے کل درآمدی بل کے ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ انہوں نے احسن اقبال کو مشورہ دیا کہ ہمیں زیادہ نتیجہ خیز امور پر توجہ دینی چاہیے۔

اس بارے میں ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر کے بیان کو بے معنی قرار دیا۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں 35 برس کام کرنے والے زبیر اقبال اس وقت واشنگٹن ڈی سی کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے بیانات کو اہمیت نہیں دی جانی چاہیے کیوں کہ اس کا تعلق معاشی پالیسی یا گورننس کے امور کے ساتھ نہیں ہے۔

ان کے بقول "لوگوں سے رضاکارانہ اپیل کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ کسی شے پر آمدن خرچ کرنا بند کر دیں گے۔ لوگ اپنے مفاد، آمدن اور بجٹ کو دیکھ کر خرچ کرتے ہیں نہ کہ سیاست دانوں کی اپیلوں کو مدنظر رکھ کر۔"

ڈاکٹر زبیر اقبال کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اور پاکستان میں بھی ایسی پالیسیاں اپنائی گئیں جہاں ضروری اشیا کو راشن کیا گیا۔ لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔

درآمدی بل کو کنٹرول کرنے کی معاشی پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ چائے کے استعمال کو کم کر دیں تو اس کی درآمد پر ٹیرف بڑھا دیں۔ اس سے چائے کی قیمت بڑھ جائے گی اور لوگ اپنی آمدن کسی اور مد میں استعمال کریں گے۔"

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے ہی درآمدی بل کم اور زرِمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG