ایک نئی تحقیق میں مستقبل میں وبائی امراض کو روکنے کے لیےجنگلی حیات کی قدرتی رہائش گاہوں کے تحفظ اور بحالی پر زور دیا گیا ہے۔ سائنسی جریدے نیچر میں بدھ کو شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر جنگلی جانوروں کو اپنی قدرتی رہائش گاہوں میں وافر خوراک دستیاب نہ ہو تو وہ انہیں چھوڑ کر زرعی علاقوں کا رخ کرلیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ پالتو جانوروں اور انسانوں میں بیماریاں پھیلانے کا خطرہ بن سکتے ہیں ۔
یونائیٹڈ پریس انٹر نیشنل ، یو پی آئی کے مطابق کارنیل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اس ریسرچ میں 1996 اور 2020 کے درمیان آسٹریلیا میں پھلوں سے خوراک حاصل کرنے والی چمگادڑوں پر توجہ مرکوز کی تاکہ جانوروں کی ایک نسل سے کسی دوسری نسل میں بیماری کی منتقلی کے خطرے کو سمجھا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ مستقبل کے وبائی امراض کو روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جنگلی حیات کی قدرتی رہائش گاہوں کو تباہ کرنا بند کردیا جائے۔
اس ریسرچ کے محققین کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی سے جانوروں سے انسانوں میں متنقل ہونے والی ہر وبائی بیماری کی دو وجوہات رہی ہیں ۔ پہلی ان کے قدرتی ٹھکانوں کا نقصان ہے، جس کے نیتجے میں وہ زرعی علاقوں کا رخ کرتے ہیں ، اور دوسری آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی خوراک کی کمی ۔
محققین نے خاص طور پر آسٹریلیا میں خوراک کے لئےپھلوں پر انحصار کرنے والی چمگادڑوں اور خوراک کی فراہمی میں ہونے والی تبدیلیوں پر ان کے ردعمل اور اس بارے میں ریسرچ کی کہ اس رد عمل نے چمگادڑوں سے گھوڑوں اور انسانوں کو منتقل ہونے والے انتہائی مہلک وائرس Hendra کے پھیلاؤ پر کیا اثر ڈالا۔
اس تحقیق کے ایک بڑَ ےحصے میں1996 سے 2020 تک کے عرصے کے دوران یہ ڈیٹا اکھٹا کیا گیا جس میں پھلوں سے خوراک حاصل کرنے ولی چمگادڑوں کی آبادیوں ، ان کےخوراک حاصل کرنے کے مقامات، آب و ہوا ، ان کی تولیدی شرح ، خوراک کی قلت کے برسو ں اور ان کے رہائشی مقاما ت کو پہنچنے والے نقصان، اور دوسرے حقائق کو بیان کیا گیا ۔
کارنیل یونیورسٹی کے شعبہ پبلک اینڈ ایکو سسٹم ہیلتھ کی پروفیسر اور اس ریسرچ کی مرکزی آتھر رینا پلورائٹ نے ایک بیان میں کہا، کہ اس وقت دنیا کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ہم اگلی وبائی بیماری کو کیسے روک سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی بحث میں فطرت کا تحفظ یا بحالی کے موضوعات شاذ و نادر ہی شامل ہوتے ہیں ۔
کارنیل یونیورسٹی کےمحققین کو معلوم ہوا کہ ان برسوں میں جب موسم سرما کے دوران وافر خوراک دستیاب تھی ، چمگادڑیں اپنے آبائی جنگلات میں انسانی آبادیوں سے دور مقیم ر ہیں۔ لیکن خوراک کی قلت کے دوران انہوں نے چھوٹے چھوٹے گروپس کی صورت میں زرعی علاقوں اور قریبی انسانی آبادیوں کا رخ کیا ،عمومی طو پر انجیر ، آم اور درختوں کے سائے کی تلاش میں ، جہاں وہ مزید وائرس پھیلا سکتی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق زرعی علاقوں میں وبائی بیماریوں کے وائرس اس وقت پھیل سکتے ہیں جب وہاں کا رخ کرنے والی چمگادڑوں کا پیشاب اور فضلہ ان چراگاہوں میں گرتا ہے جہاں گھوڑے گھاس چرتے ہیں اور نتیجتاً ان میں ہنڈرا وائرس کے انفیکشن کا باعث بن سکتا ہے ۔
گھوڑوں میں اس وائرس کو انسانوں میں منتقل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ، جس کی شرح اموات 57 فیصد ہے ۔ دوسرے مہلک وائرس، جیسے سارس،نیپا اور ممکنہ طور پر ایبولا بھی چمگادڑوں سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے، بعض اوقات کسی درمیانی رابطے کے ذریعے۔
اس تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق چمگادڑوں کے رویے، وہ کہاں رہتی ہیں، بچے پیدا کرتی ہیں اور اپنی خوراک کہاں سے حاصل کرتی ہیں، اس ریکارڈ سے مطابقت رکھتے تھے جو آب و ہوا، رہائش گاہ کے نقصان اور ماحولیاتی حالات سے متعلق تھا۔
ریسرچرز نے ان اعدادو شمار کے تجزئے کے لیے کمپیوٹر ماڈلز تشکیل دیے ۔
پلو رائٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے ان اعدادو شمار کوکمپیوٹر ماڈلز کے نیٹ ورک میں ڈالا تو معلوم ہوا کہ ہم آب و ہوا، خوراک کی دستیابی اور چمگادڑوں کے مقام کی بنیاد پر وائرس کے پھیلاؤ کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ باقی ماندہ مقامات میں جب خوراک پیدا ہوتی ہے تو وائرس کا پھیلاؤ رک جاتا ہے۔ اس لیے ہنڈرا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا ایک پائیدار طریقہ یہ ہے کہ ان جنگلات کی کٹائی بند کر دی جائے جہاں پھلوں پر خوراک کے لئے انحصار کرنے والی چمگادڑیں رہتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی اہم رہائش گاہوں کی حفاظت اور بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے ۔