اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی کوششوں کے بعد حکومت اور اپوزیشن قومی اسمبلی کا اجلاس پرامن انداز میں چلانے پر متفق ہو گئے۔ لیکن دو روز جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی اور شور شرابے کے بعد جمعرات کو بھی ماحول میں تلخی برقرار رہی۔
جمعرات کو جب اجلاس شروع ہوا تو قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے اپنی بجٹ تقریر بھی مکمل کر لی۔
اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپوزیشن اور حکومتی اراکین سے مذاکرات کیے جس کے بعد فریقین بجٹ اجلاس کو پرامن انداز میں چلانے پر رضا مند ہو گئے۔
اتفاقِ رائے کے بعد اسپیکر نے حکومت اور اپوزیشن کے سات اراکین کے اسمبلی میں داخلے پر پابندی کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ میرا استعفیٰ اپوزیشن کی خواہش ہے لیکن وہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرتے رہیں گے۔
خیال رہے کہ اپوزیشن نے اسپیکر پر جانب داری کا الزام عائد کرتے ہوئے اُن کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ اپوزیشن نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لانے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
البتہ، وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے جمعرات کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ اپوزیشن اب یہ قدم نہیں اُٹھائے گی۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت سے اڑھائی گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔
اسپیکر قومی اسمبلی گزشتہ روز سے اجلاس شروع ہونے تک حکومت اور اپوزیشن سے بات چیت میں مصروف رہے۔ گزشتہ روز اپوزیشن نے حکومتی وفد سے براہ راست مذاکرات سے انکار کردیا تھا لیکن آج یہ مذاکرات ہوئے اور کامیاب رہے۔
میڈیا سے گفتگو میں اسد قیصر کا کہنا تھا کہ "تمام ارکانِ اسمبلی پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہیں، میں اخلاقی طور پر ہی کسی کو کہہ ہی سکتا ہوں۔ کسی کو اٹھا کر باہر نہیں پھینک سکتا۔"
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ میرے اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا حق ہے تاہم قومی اسمبلی میں پیش آنے والے واقعات افسوس ناک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2020 میں حکومت کو 114 اور اپوزیشن کو 103 گھنٹے ملے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سات اراکین کو ویڈیو دیکھ کر معطل کیا، میری کسی کےساتھ ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے۔
اس سوال پر کہ آپ نے وزرا کےخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا، اسد قیصر نے کہا کہ جو لوگ مجھے فوٹیج میں نظر آئے ان کے خلاف ایکشن لیا، مجھے کوئی وزیر فوٹیج میں ہلڑ بازی کرتا نظر نہیں آیا۔
میڈیا کی جانب سے موبائل فوٹیج دکھانے پر اسپیکر گفتگو چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
حکومت اپوزیشن مذاکرات
ہنگامہ آرائی کے بعد اپوزیشن نے ایک روز پہلے براہ راست مذاکرات سے انکار کیا تھا لیکن جمعرات کو اپوزیشن مذاکرات پر راضی ہو گئی جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی ٹیموں کے مذاکرات ہوئے۔
مذاکرات کے بعد وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک اور فواد چوہدری نے ایک نیوز کانفرنس بھی کی جس میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سے بات ہوئی اور جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں جو کچھ ہوا وہ پارلیمان کے وقار کے خلاف ہے اس قسم کے واقعات سے عوام کی نظروں میں پارلیمان کا احترام کم ہوتا ہے۔
اسمبلی اجلاس شروع ہونے کے بعد قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنی بجٹ تقریر کا ایک مرتبہ پھر آغاز کیا، اس دوران حکومتی وزیر مراد سعید اور علی امین گنڈاپور نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو سپیکر نے انہیں خاموش کروادیا،جس کے بعد کچھ حکومتی وزرا و اراکین ایوان سے باہر چلے گئے۔
قومی اسمبلی میں ہوا کیا تھا؟
خیال رہے کہ منگل کو قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہونے پر حکومت اور اپوزیشن کے اراکین نے ایک دوسرے پر جملے کسنے کے علاوہ ہاتھ پائی بھی کی۔
اس دوران سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ارکان قومی اسمبلی کو ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں حکومتی و اپوزیشن ارکان ایک دوسرے کو چور اور دیگر القابات سے بھی نوازتے رہے۔
منگل کو ہونے والے اجلاس کے دوران اپوزیشن اور حکومتی ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیاں پھینکیں۔ اس دوران کاپیوں کے بنڈل لگنے سے ایک سارجنٹ اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن ملیکہ بخاری زخمی ہو گئیں۔
بدھ کو بھی اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گیا تھا جس کے بعد اسپیکر نے حکومتی اور اپوزیشن اراکین سے مذاکرات کر کے اجلاس پرامن رکھنے پر قائل کیا۔
قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے باعث اسپیکر کو کارروائی بار بار ملتوی کرنا پڑی جس کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی اپنی تقریر پوری نہیں کر سکے تھے۔