رسائی کے لنکس

فیض آباد دھرنا کیس پر انکوائری کمیشن قائم، دو ماہ میں رپورٹ پیش کرے گا


ٹی ایل پی نے 2017 میں لگ بھگ تین ہفتوں تک فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا بعد ازاں ایک معاہدے کے تحت یہ دھرنا ختم کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو)
ٹی ایل پی نے 2017 میں لگ بھگ تین ہفتوں تک فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا بعد ازاں ایک معاہدے کے تحت یہ دھرنا ختم کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی نگراں حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ یہ کمیشن دو ماہ میں اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گا۔

حکومت کے بدھ کی صبح جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق خیبر پختونخوا کی پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) سید اختر علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن بنایا گیا ہے۔

کمیشن کے دیگر ارکان میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ خوش حال خان اور سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس شامل ہیں۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق یہ کمیشن فیض آباد دھرنے کے ذمے داران کا تعین کرے گا جب کہ کمیشن کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ذمے داران کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کر سکے گا۔

نگراں حکومت نے یہ کمیشن ایک ایسے وقت میں تشکیل دیا ہے جب دو ہفتے قبل فیض آباد دھرنا عمل در آمد کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کر دی تھی۔

اس کیس کی مزید سماعت آج یعنی 15 نومبر کو ہونی ہے۔ اس سماعت سے قبل حکومت نے تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔

گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔

اس کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

فیض آباد دھرنا کیس کیا تھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کمیشن سے سب ادارے تعاون کے پابند ہوتے ہیں لیکن کمیٹی کے سامنے تو کوئی پیش نہیں ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقات پر حکومت سے مشاورت کے لیے مہلت کی استدعا کی تھی۔

واضح رہے کہ نومبر 2017 میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے جنکشن فیض آباد کے مقام پر تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے پر کیس کا فیصلہ نومبر 2018 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے محفوظ کیا تھا۔ بعد ازاں اس از خود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ نے 2019 میں نمٹا دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جینس ایجنسیوں اور فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

فیض آباد دھرنے کی وجہ قومی اسمبلی کی جانب سے الیکشن میں امیدواروں کے حلف نامے میں تبدیلی بنی تھی۔

اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے انتخابی امیدواروں کے حلف نامے میں نامزدگی سے متعلق نئے فارم میں لفظ اوتھ یعنی حلف کو 'ڈکلیئر' کے لفظ سے تبدیل کیا تھا۔

اس تبدیلی کے خلاف ٹی ایل پی نے 22 روز تک فیض آباد کے مقام پر دھرنا سے کر اس کو بند رکھا تھا۔

بعد ازاں فوج کی ثالثی سے ایک معاہدے کے تحت اُس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد سے استعفیٰ لے لیا تھا۔

اس معاہدے پر ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل فیض حمید کے دستخط موجود تھے۔

فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پیمرا، تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی مسلم لیگ سمیت نو فریقین نے نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

تاہم چار سال کے وقفے کے بعد جب اس کیس کی رواں برس 28 ستمبر کو پہلی سماعت ہوئی تو بیشتر درخواست گزاروں نے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔

XS
SM
MD
LG