حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اور کمیشن کے چیئرمین سمیت دیگر ذمہ داران سے مستعفی ہونے کے مطالبات میں شدت آ گئی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ میں شامل وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے تنبیہ کی ہے کہ اگر الیکشن کمیشن مستعفی نہ ہوا تو سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سینیٹ انتخابات میں الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکا اس لیے متنازع الیکشن کمیشن آگے نہیں چل سکتا۔
فواد چوہدری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کو خود ہی مستعفی ہو کر چلے جانا چاہیے۔ بصورتِ دیگر تمام قانونی آپشنز موجود ہیں۔
اُن کے مطابق ایک سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) صرف عوام کا مطالبہ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدیداران تک پہنچا رہی ہے کہ استعفیٰ دے کر پارلیمنٹ کو نیا کمیشن تشکیل دینے کا موقع دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ الیکشن کمیشن اپنا وہ مقصد پورا نہیں کر رہا جس کے لیے یہ تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کی ساکھ صرف اس وقت ہی معتبر ہو سکتی ہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں اس پر بھروسہ کریں۔
کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
قبل ازیں پیر کو حکومتی وزرا نے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین اور ممبران سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
وفاقی وزرا شفقت محمود، شبلی فراز اور فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم ضروری ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کا ایک وفد سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن گیا اور کمیشن سے استدعا کی کہ بیلٹ پیپر ایسا بنائیں جو ضرورت پڑنے پر چیلنج کیا جا سکے۔ ویڈیو میں سب نے دیکھا کہ کیسے ووٹ خریدنے کی کوشش کی گئی۔
وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ الیکشن سے مطمئن نہیں۔ یہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہے۔
ان کے بقول الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ بطور حکمران جماعت تحریکِ انصاف کو الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں۔ کمیشن کو بحیثیت مجموعی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ نیا کمیشن بنایا جائے جس پر سب کو اعتماد ہو۔
'یہ بہت پریشان کن صورتِ حال ہے'
اس بارے میں پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ یہ بہت پریشان کن صورتِ حال ہے۔ کمیشن کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس پر الیکشن کمیشن کو ایسے وزرا کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ لیکن اب تک کمیشن بہت تحمل سے کام لے رہا ہے۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے وہ جمہوری نظام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے بقول وفاقی وزرا سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے ریاست کے ایک ادارے کے خلاف پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ اگر کمیشن اس پر ایکشن نہیں لیتا تو پورا نظام تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے کمیشن کے حوالے سے اگر تحفظات ہیں تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مزید تشریح کے لیے سپریم کورٹ جانا چاہیے تھا۔ لیکن سرکاری سر پرستی میں ایسا پروپیگنڈا کرنا درست نہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنا کیس خود خراب کیا ہے: اظہر صدیق ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے بیان کے بعد الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز از خود ایک ثبوت ہے کہ وہ جانب دار کمیشن ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک ایسا ادارہ ہے جس نے انتظامی کام بھی کرنے ہیں اور عدالت کی ذمہ داریاں بھی ان پر ہیں۔ ایسے میں کسی ایک فریق کے اعتراض پر پریس ریلیز جاری کر کے مؤقف دینا اسے جانب دار بنا دیتا ہے۔
ان کے بقول الیکشن کمیشن نے اپنا کیس خود خراب کیا ہے۔
اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ آئین میں الیکشن کمیشن کو ہٹانے کا طریقۂ کار سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے لکھا ہوا ہے اور مستعفی ہونے کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران خود کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین یا ارکان کو مستعفی ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے متنازع ہوجائیں گے: مدثر رضوی
انتخابی عمل کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ایسے بیانات نے الیکشن کمیشن کے تمام فیصلوں کو متنازع بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کے سینیٹ الیکشن کرانے پر سپریم کورٹ کی رائے یا الیکشن کمیشن نے جو تشریح کی اس پر اعتراض تھا تو سپریم کورٹ جایا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ ایک آئینی ادارے کے خلاف بیان بازی شروع کر دی جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بھی اگر کہہ دیتی ہے کہ کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوئی اور پھر فارن فنڈنگ کیس میں حکومت کے خلاف فیصلہ آیا۔ تو حکومت اس کو اپنے خلاف اقدام سمجھتے ہوئے کمیشن پر تنقید کرے گی اور اگر حکومت کے حق میں فیصلہ آیا تو اپوزیشن تنقید کرے گی کہ کمیشن ڈر گیا۔
کمیشن چیئرمین اور ممبران کو کیسے ہٹایا جا سکتا ہے؟
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کہتے ہیں کہ اگر حکومت کو کمیشن پر اعتراض ہے تو اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جایا جائے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اس لیے حکومت ایسے دباؤ ڈال رہی ہے۔
کمیشن کے ارکان کو ہٹانے کے بارے میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ان کو ہٹانا اس قدر آسان کام نہیں ہے۔ حکومت کو اس کے لیے مکمل چارج شیٹ درکار ہوگی۔
ان کے بقول اس وقت جو حالات ہیں ایسی کوئی چارج شیٹ موجود نہیں اور سپریم جوڈیشنل کونسل میں حکومت کو ہزیمت کا سامنا ہوگا۔ البتہ حکومت ابھی خود بھی اس راستہ سے احتراز کر رہی ہے اور صرف دباؤ ڈال رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا موجودہ حالات میں دباؤ ڈالنا درست نہیں۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن اس وقت دباؤ میں نہیں آئے گا۔
کنوردلشاد کا کہنا تھا کہ توہینِ عدالت کے معاملے میں بھی حکومت کے حق میں فیصلہ آنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ کیوں کہ یہ عدالت کا فیصلہ نہیں تھا۔ بلکہ عدالت کی صدارتی ریفرنس پر رائے تھی۔ اس رائے کو کوئی ادارہ کس طرح لیتا ہے یہ اسی پر منحصر ہے۔
سیاسی جماعتوں کا ردِ عمل
حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے حکومتی اقدام پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی بیان کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کمیشن پر دباؤ ڈال کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت آئینی تصادم کی طرف جا رہی ہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کی تعیناتی اس حکومت نے کی ہے اپوزیشن نے نہیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ الیکشن کمیشن حکومت کو ان کی مرضی کے نتائج نہیں دے رہا۔ کمیشن حکومت کو دھاندلی چھپانے نہیں دے رہا۔
ان کا کہا تھا کہ حکومت کو کوئی اعتراضات ہیں تو ٹریبیونل میں جائے۔ حکومت پاکستان کو خطرناک نہج پر لا رہی ہے۔ ان کی مرضی کے نتائج نہیں آئے تو کہتے ہیں ادارہ ختم ہو جائے۔ آئین کو پھاڑ دیں۔ ان کی نظر میں ایک پیج پر ہونے کا مقصد ان کی مرضی پر چلنا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں کہ کبھی کسی حکومت نے الیکشن کمیشن پر ایسی چڑھائی نہیں کی۔ حکومت کی حرکت سے جمہوریت کمزور ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم الیکشن کمیشن بارے اپنے بیانات پر غور کریں۔ ان حالات میں تمام جمہوری قوتیں الیکشن کمیشن کے پیچھے کھڑی ہیں۔