پنجاب کے وسطی ضلعے سرگودھا کی مقامی عدالت نے توہینِ مذہب کے الزام پر بینک کے مینیجر کو قتل کرنے والے ملزم کو سزائے موت سنا دی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے بینک مینیجر کو قتل کرنے والے سیکیورٹی گارڈ احمد نواز کو دو بار سزائے موت، 12 سال قید اور 11 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت سرگودھا کے جج خاور رشید نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مجرم کو مزید دو سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔
عدالت نے مذکورہ فیصلہ 30 جون کو سنایا تھا جس کے بعد مجرم احمد نواز کے پاس اعلیٰ عدلیہ میں فیصلے کے خلاف اپیل کا اختیار ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں مجرم احمد نواز کے اہلِ خانہ اور وکلا سے رابطہ کرنا چاہا تو وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔
خیال رہے گزشتہ برس چار نومبر 2020 کو بینک کے سیکیورٹی پر مامور محافظ کے ہاتھوں بینک مینیجر کو قتل کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔
پولیس کے مطابق خوشاب کی تحصیل قائد آباد میں واقع نیشنل بینک کی برانچ کے مینیجر ملک عمران حنیف کو سیکیورٹی گارڈ احمد نواز نے رائفل سے فائرنگ کرکے زخمی کر دیا تھا۔
مینیجر کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔
واقعے کے بعد بینک میں موجود دیگر گارڈز نے احمد نواز کو پکڑ لیا تھا اور پولیس کے حوالے کیا تھا۔
قتل کے واقعہ کے بعد سیکیورٹی گارڈ کا کہنا تھا کہ اس نے ملک عمران حنیف کو توہینِ مذہب پر قتل کیا ہے۔ بینک مینیجر نے مبینہ طور پر توہین آمیز کلمات کا استعمال کیا تھا۔
مقتول بینک مینیجر ملک عمران حنیف کے ورثا نے کہا تھا کہ سیکیورٹی گارڈ کو بینک مینیجر نے تاخیر سے آنے پر سرزنش کی تھی جس پر وہ طیش میں آ گیا تھا اور فائرنگ کر کے ملک عمران حنیف کو قتل کر دیا تھا۔
واقعہ کا مقدمہ تھانہ قائدآباد خوشاب میں درج کیا گیا تھا جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل تھیں۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں مقتول ملک عمران حنیف کے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کر دیا۔
پولیس نے واقعے کے فوری بعد ملزم کو جائے وقوع سے گرفتار کرتے ہوئے اسے قائد آباد تھانے منتقل کرنے کی کوشش کی۔ تو مقامی لوگوں کے ایک ہجوم نے تھانے کو گھیرے میں لے لیا تھا جو بعد ازاں جلوس کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ مقامی لوگوں نے گارڈ کے حق میں نعرے بھی لگائے تھے۔
ضلع خوشاب کے علاقے قائد آباد میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے علما کی سات رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس میں علما کے ساتھ ساتھ پولیس اور دیگر افراد بھی شامل کیے گئے تھے۔
کمیٹی نے اعلامیے میں کہا تھا کہ مقتول عمران حنیف توہینِ مذہب کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔
کمیٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام کسی پر نہ لگا سکے۔
انسانی حقوق کی تنظمیں اِس واقعے سے قبل بھی آواز اٹھاتی رہی ہیں کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے واقعات میں لوگ اپنی ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر ایسے الزامات لگاتے ہیں۔