پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ایک جھڑپ کے دوران سات مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا ہے ۔حکام اور قبائلی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد 'حافظ گل بہادر' گروپ سے منسلک تھے۔
شمالی وزیرستان میں تین روز کے دوران سیکیورٹی فورسز کی عسکریت پسندوں کے ساتھ یہ دوسری مسلح جھڑپ ہے۔
رواں ماہ جون کے آخری دو ہفتوں کے دوران شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں پر تشدد واقعات میں مجموعی طور پر 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں گیارہ مبینہ عسکریت پسندوں کے علاوہ نو شہری اور پانچ سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ بیان کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان جھڑپ شمالی وزیرستان کی تحصیل غلام خان کے علاقے سیدگی میں ہوئی جس میں سات دہشت گرد مارے گئے جن میں ایک خودکش بمبار بھی شامل ہے۔
آئی ایس پی آر نے عسکریت پسندوں سےجھڑپ کے دوران ایک نائب صوبیدار سمیت دو اہلکاروں کی بھی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے پہلے ہی شمالی وزیرستان میں ہونے والے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ۔ جب کہ حکام نے ان واقعات کو ایک اور شدت پسند گروپ کی کارروائی قرار دیا ہے۔
سول انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کے حکام شمالی وزیرستان میں دہشت گردی اور تشدد کے حالیہ واقعات کا ذمے دار کالعدم تنظیم 'شوریٰ مجاہدین شمالی وزیرستان' کو قرار دے رہے ہیں جس کے سربراہ حافظ گل بہادر ہیں۔
اس سے قبل 24 جون کوشمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ کے گاؤں ہمزونی میں ایک جھڑپ کے دوران چار دہشت گرد مارے گئے تھے جب کہ 14 جون کو عسکریت پسندوں نے میرعلی سب ڈویژن میں فورسز کے قافلے کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں دو سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔ ان واقعات کی ذمے داری بھی 'حافظ گل بہادر' گروپ پر ڈالی گئی تھی۔
حافظ گل بہادر کون ہیں؟
لگ بھگ پچاس سالہ حافظ گل بہادر کا تعلق شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے مداخیل وزیر سے بتایا جاتا ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں ان کا تعلق مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے تعلیمی اداروں میں ذیلی تنظیم جماعت طلباء اسلام سے تھا اور وہ اس کے علاقائی سربراہ بھی تھے ۔
سن 2003 اور 2004 میں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں شروع ہوئیں تو اس وقت حافظ گل بہادر کا شمار بھی انتہائی اہم کمانڈروں میں ہونے لگا تھا۔ ان کی سربراہی میں سرکردہ کمانڈروں نے پانچ ستمبر 2006 کو حکومتِ پاکستان کے ساتھ ایک امن معاہدہ بھی کیا تھا جو پندرہ جون 2014 کو عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن 'ضرب عضب ' شروع ہونے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔
فوجی آپریشن شروع ہوتے ہی حافظ گل بہادر اپنے اہم ساتھیوں اور جنگجوؤں سمیت سرحد پار افغانستان چلے گئے تھے جہاں وہ اب تک روپوش ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد حکومت پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مصالحت کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن حافظ گل بہادر کی تنظیم کو ان مذاکرات میں اب تک شامل نہیں کیا گیا ۔
'قبالی علاقوں میں حافظ گل بہادر کی پوزیشن مضبوط ہے'
کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے امن مذاکرات میں حافظ گل بہادر کی شمولیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی حافظ گل بہادر کا کوئی مؤقف سامنے آیا ہے۔ جب کہ تجزیہ کار اس بارے میں ملے جلے ردِعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ کہتے ہیں حافظ گل بہادر کسی بھی طور پر زیادہ خطرناک نہیں کیوں کہ ان کے پہلے بھی حکومت اور عسکری اداروں کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں۔
ان کے بقول اگر کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس کے بعد حافظ گل بہادر کے ساتھ بھی اسی قسم کے معاہدے کے قوی امکانات موجود ہیں۔
تاہم قبائلی رہنما ملک خالد خان داوڑ کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی پر حافظ گل بہادر سخت ناراض ہیں اور اگر حکومت ان سے کوئی معاہدہ کرے گی تو وہ اپنی شرائط منوائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر کی پوزیشن کافی مستحکم ہے اور جب تک ان کے ساتھ مفاہمت یا مصالحت نہیں ہوتی تب تک قبائلی علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال قائم نہیں ہوسکتی۔