پاکستان میں اس سال حج اخراجات میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا اضافہ کرنے پر اپوزیشن نے بھرپور احتجاج کیا ہے۔ یہ احتجاج سینیٹ تک جا پہنچا جہاں حکومت نے ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال دیا۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے انتخابی حکمت عملی کے تحت حج اخراجات میں اضافہ نہیں کیا تھا جس کا بوجھ موجودہ حکومت پر پڑ گیا ہے۔
پاکستان میں اپوزیشن نے حج اخراجات میں اضافے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اراکین سینیٹ نے اخراجات میں اضافے کو حاجیوں پر ڈرون حملہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں سینیٹ اجلاس شروع ہوا تو جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے حج اخراجات میں اضافے پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ تحریک انصاف نے کہا تھا کہ مدینے کی ریاست بنائیں گے۔ عوام کو مذہبی امور پر سہولیات کے حوالے سے امید تھی لیکن حج اخراجات میں 60 فیصد سے زائد اضافہ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حج اخراجات 2 لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ 56 ہزار کر دیئے گئے۔ وزارت مذہبی امور کی حج پر سبسڈی کی درخواست کو قبول نہیں کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کہا کہ حج پر سبسڈی دی جا سکتی ہے۔ میں حکومت کے فیصلے کو حج پر ڈرون حملہ سمجھتا ہوں۔ اس سال ایک لاکھ 84 ہزار پاکستانی حج ادا کریں گے۔ حکومت سینما گھروں کی بحالی پر تو اربوں روپے خرچ کرتی ہے، حج پر بھی سبسڈی دے۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے گزشتہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سعودی عرب کی جانب سے اخراجات میں اضافے کو اصل وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مدینہ کی ریاست کے موقف پر قائم ہیں۔ سابق حکومت نے الیکشن سال کے باعث حج اخراجات نہیں بڑھائے تھے۔ سعودی عرب اب 94 ہزار 185 روپے بلڈنگ کے لے گا۔ خوراک کے چارجز 23 ہزار 606 سے بڑھ کر 38 ہزار ہو گئے ہیں۔ مدینہ میں رہائش کے اخراجات بھی 23 ہزار 200 سے بڑھ کر 40 ہزار ہو گئے ہیں۔ قربانی 13 ہزار 50 روپے سے 19 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ زم زم 290 روپے سے 409 کا ہو گیا ہے۔ لگیج چارجز 580 روپے سے 890 روپے ہو گئے ہیں۔ حکومت یہ بوجھ کس پر ڈالے؟ وزارت مذہبی امور کوشش کر رہی ہے کہ سعودی حکومت سے کوئی ریلیف حاصل کیا جاسکے اور یہ ریلیف حج سے قبل عام شہریوں کو دیا جائے۔
پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد نے کہا کہ عوام ایک ایک پیسہ جوڑ کر حج پر جانے کا انتظام کرتے ہیں اور ان پر ایک ہی لمحہ میں ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ عام غریب شہریوں کا جینا تو دوبھر کر ہی دیا گیا تھا اور اب حج کو غریب کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت نے عوام کا مکہ اور مدینہ جانا مشکل بنا دیا ہے۔ حکومت نے ملکی تاریخ کا سب سے مہنگا حج قوم کو دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عام لوگوں کو ریلیف دینے کا نام لے کر اقتدار میں آئی ہے، لیکن حج اخراجات کی صورت میں ان پر ڈرون حملہ کر دیا گیا ہے۔
سال 2018 میں حج اخراجات 3 لاکھ 22 ہزار روپے تھے، لیکن ن لیگ کی حکومت نے حج اخراجات کم رکھنے کے لئے 42 ہزار روپے کی سبسڈی دی تھی اور اخراجات کو 2017 کی سطح برقرار رکھا تھا۔
رواں سال وزارت مذہبی امور نے کابینہ کو 42 ہزار روپے فی حاجی سبسڈی برقرار رکھنے کی سفارش کی تھی کیونکہ سعودی عرب میں پانچ فیصد اضافی ٹیکس، منیٰ میں ٹرین ٹکٹ، کھانا، رہائش گاہوں کے اخراجات بڑھنے اور ریال کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے حج کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن حکومت نے سبسیڈی دینے سے اتفاق نہیں کیا۔