رسائی کے لنکس

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ دوسری بار مؤخر


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف گزشتہ برس کے آغاز میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
  • اسلام آباد کی احتساب عدالت نے کیس کا فیصلہ 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا۔
  • احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے پہلے 23 دسمبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔ پھر چھ جنوری کی تاریخ دی اور اب 13 جنوری کو فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہے۔

ویب ڈیسک—اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور ملک کی بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ ایک بار پھر مؤخر کرکے نئی تاریخ 13 جنوری مقرر کر دی ہے۔

احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف چھ جنوری کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی۔ تاہم پیر کو یہ فیصلہ نہیں سنایا جا سکا ہے۔

القادر ٹرسٹ کیس کو مقامی میڈیا میں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

پیر کو فیصلہ نہ سنانے کے حوالے سے عدالتی عملے نے عمران خان کے وکیل خالد یوسف چوہدری کو آگاہ کیا۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق خالد یوسف چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالت کے عملے نے بتایا ہے کہ فیصلہ آج نہیں سنایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی عملے نے بتایا ہے فیصلہ سنانے کی اگلی تاریخ آج ہی مقرر کی جائے گی۔ بعد ازاں عدالتی عملے نے آگاہ کیا کہ اس کیس کا فیصلہ 13 جنوری کو سنایا جائے گا۔

رپورٹس کے مطابق احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا کی رخصت کے سبب فیصلہ نہیں سنایا جا سکا۔ احتساب عدالت نے اس کیس کا فیصلہ گزشتہ ماہ 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا۔

عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے قبل ازیں 23 دسمبر کو کیس کا فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی۔ تاہم جج ناصر جاوید رانا نے فیصلہ سنائے جانے کی تاریخ ملتوی کر کے نئی تاریخ چھ جنوری مقرر کی تھی۔ اب ایک بار پھر فیصلہ مؤخر کرکےنئی تاریخ 13 جنوری مقرر کر دی گئی ہے۔

القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے؟

'القادر ٹرسٹ' کی بنیاد سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں 2019 میں رکھی گئی تھی جس کے ٹرسٹی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرح گوگی ہیں۔

القادر ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی منظوری لی تھی۔ جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔

پاکستان کو یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے برطانیہ میں ایک تصفیے کے نتیجے میں منتقل کی گئی تھی۔

بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے تصفیہ کر لیا تھا جب کہ این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دی تھی۔

لیکن یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی تھی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں رقم ادا کر رہے ہیں۔

عمران خان کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے نو مئی 2023 کو القادر ٹرسٹ کیس میں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد ملک گیر احتجاج بھی ہوا تھا۔ بعد ازاں عمران خان کو اس کیس میں ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔

اگست 2023 سے جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو نیب نے نومبر 2023 میں اس کیس میں پھر گرفتار کیا جب کہ تفتیش مکمل ہونے پر دسمبر 2023 میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

راولپنڈی کی احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے ایک سال قبل 27 فروری 2024 سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر القادر ٹرسٹ کیس میں فردِ جرم عائد کی تھی۔

مقامی میڈیا کے مطابق اس کیس کی لگ بھگ 100 سماعتیں ہوئیں جب کہ 30 سے زائد گواہان کو پیش کیا گیا جن میں سابق وزیرِ دفاع پرویز خٹک، سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں پرنسپل سیکریٹری رہنے والے اعظم خان بھی شامل تھے۔

XS
SM
MD
LG