اسلام آباد پولیس نے مارگلہ ہلز کے ٹریل تھری پر خاتون کے ساتھ مبینہ ریپ کیس میں زیادتی کے شواہد نہ ملنے کا دعویٰ کیا ہے۔
14 جولائی کو اسلام آباد پولیس کو شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے درخواست دی تھی کہ اسے نوکری کے بہانے اسلام آباد بلوا کر ٹریل تھری پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس پر پولیس نے فوری مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کردی تھی۔
اتوار کو پولیس نے اس کیس کے ملزم کو تین روز کی کوششوں کے بعد راولپنڈی سے گرفتار کر لیا تھا۔
پولیس کے مطابق مبینہ ریپ کی شکار ہونے والی خاتون نے اسلام آباد کے کوہسار پولیس اسٹیشن پہنچ کر ضابطہ فوج داری کے سیکشن 376 کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ابتدائی میڈیکل میں خاتون کے ساتھ ریپ ثابت نہیں ہوا۔
اُن کے بقول خاتون کے جسم پر ریپ کے دوران مزاحمت یا جھاڑیوں کے سبب کوئی نشان نہیں پائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی جسمانی زیادتی کا کوئی کیس سامنے آتا ہے تو اس میں فوری طور پر میڈیکل کروایا جاتا ہے جس میں سے ایک ظاہری میڈیکل ہوتا ہے جس میں لیڈی ڈاکٹر جسم پر پائے جانے والے نشانات اور مزاحمت کے نشانات کے مطابق میڈیکل رپورٹ لکھتی ہیں۔
دوسری رپورٹ فارنزک رپورٹ ہوتی ہے جو پنجاب فارنزک لیبارٹری کپڑوں اور دیگر شواہد کی بنا پر جاری کرتی ہے۔ اس کیس میں ابتدائی رپورٹ کے مطابق زیادتی ثابت نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری رپورٹ کے لیے پنجاب فارنزک کو مواد بھجوا دیا گیا ہے جس کی رپورٹ آنے کے بعد ہی حتمی رپورٹ دی جا سکے گی۔
تقی جواد کا کہنا تھا کہ اس کیس میں متاثرہ خاتون نے پولیس سے تعاون نہیں کیا اور جب ان سے ملزم کے فون نمبرز اور ٹیکسٹ میسجز کا ریکارڈ مانگا گیا تو وہ ایک فوتگی کا کہہ کر وہ شیخوپورہ چلی گئی ہیں اور اب ان کا فون نمبر بھی بند مل رہا ہے۔
اُن کے بقول اس کے باوجود پولیس نے تیکنیکی بنیادوں پر ملزم کو تلاش کے بعد گزشتہ رات گئے اسے گرفتار کر لیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق مریدکے سے تعلق رکھنے والی خاتون نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ نوکری کی تلاش میں تھیں اور انہیں دو ماہ قبل واٹس ایپ پر ایک شخص کی جانب سے پیغام موصول ہوا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ ملزم نے "مجھے نوکری کا جھانسہ دیا اور کہا کہ وہ محکمہ تعلیم میں اکاؤنٹنٹ ہیں جہاں آسامیاں خالی ہیں اور وہ ملازمت کے حصول میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ ملزم نے نوکری کے لیے مجھے 50 ہزار روپے دینے اور راولپنڈی آنے کو کہا گیا اور میں 12 جولائی کو راولپنڈی پہنچی۔"
خاتون کے مطابق ملزم انہیں ٹینچ بھاٹا بس اسٹاپ راولپنڈی پر ملا اور وہاں ملزم کو اپنی سی وی اور 30 ہزار روپے دیے اور مزید 20 ہزار روپے ملازمت کا تحریری آرڈر ملنے کے بعد دینے کا کہا۔
خاتون نے کہا کہ اس شخص نے انہیں ایک سینئر افسر سے ملنے کا بھی کہا جو ملازمت کے لیے ان سے انٹرویو کریں گے۔
خاتون نے کہا کہ ملزم انہیں ٹینچ بھاٹا کے بس اسٹاپ سے ایک موٹر سائیکل پر مارگلہ ہلز کے ٹریل تھری پر لے گیا جس کے بعد وہ انہیں جنگل کی طرف لے گیا اور 3 بجے کے قریب گن پوائنٹ پر ریپ کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم نے شور مچانے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی، اس لیے وہ ڈر کے مارے خاموش رہیں۔ ملزم نے دھمکی دینے کے بعد پھر انہیں راولپنڈی کے بس سٹاپ پر اتار دیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مارگلہ ہلز کے ٹریل تھری پر پولیس کی نفری تعینات ہوتی ہے اور مختلف مقامات پرکیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں جب کہ ڈرون کے ذریعے بھی مختلف ٹریلز کی نگرانی کی جاتی ہے۔
اس علاقے میں پولیس کے ساتھ ساتھ اب ایف سی بھی تعینات کر دی گئی ہے۔ جب کہ مارگلہ ہلز کی اونچی پہاڑیوں پر رینجرز بھی موجود ہے۔ اس صورتِ حال میں ٹریل تھری پر ایسے واقعات کا ہونا ایک مشکل امر ہے تاہم اس بارے میں ابھی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
ٹریل تھری پر خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کے اس معاملے پر سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل سامنے آیا تھا اور مختلف افراد کی جانب سے اس بارے میں پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھایا جا رہا تھا۔
رواں سال کے آغاز میں اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ایک خاتون کو دو افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جس کے چند روز بعد یہ افراد ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔
اس کیس میں متاثرہ خاتون کی وکیل ایمان مزاری کے مطابق ملزمان نے پولیس حراست میں 50 سے زائد خواتین کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کیا تھا جس کے بعد انہیں جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا، تاہم پولیس نے اس الزام کی تردید کی تھی۔