پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں مندر سے ملحقہ آرام گاہ کی تعمیر میں تاخیر اور گزشتہ برس مندر کو نذرِ آتش کرنے والے ملزمان کے خلاف درج مقدمہ مبینہ طور پر واپس لینے کے فیصلے پر ہندو برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقہ ٹیری میں ہندوؤں کے پیشوا پرم ہنس کی سمادھی اور ملحقہ مندر کو نذرِ آتش کرنے کے الزام میں 350 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے مندر کو نذرِ آتش کرنے کے واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مندر کی دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔
مندر کے منتظم پریم تلریجا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہندو برادری نے چند برس پہلے زائرین کی سہولت کی غرض سے مندر سے ملحقہ ایک گھر خریدا تھا تاکہ دور سے آنے والے افراد کچھ وقت کے لیے آرام کر سکیں۔
اُن کے بقول اس اقدام سے مقامی آبادی کو یہ تاثر ملا کہ شاید ہندو یہاں آباد ہونا چاہتے ہیں۔ لہذٰا اُنہوں نے انتہائی قدم اُٹھاتے ہوئے پہلے اس گھر پر حملہ کیا اور پھر مندر کو نذرِ آتش کر دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود مندر سے ملحقہ آرام گاہ کی تعمیر میں تاخیر سے کام لیا جا رہا ہے جس کے باعث ہندو برادری میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
ایف آئی آر واپس لینے کے فیصلے پر تشویش
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ہندو کمیونٹی کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل روہت کمار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس تمام معاملے کو افہام و تفہم سے حل کرنے کی غرض سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے 11 مارچ کو ایک جرگے کا انعقاد ہوا۔
روہت کمار کے مطابق اس واقعے میں کل 121 افراد کو گرفتار کیا گیا جس میں مذہبی جماعت کے رہنما سمیت مقامی افراد شامل تھے جنہوں نے ہجوم کو مندر پر حملے کے لیے اُکسایا۔
اُن کے بقول 13 مارچ کو فریقین کے درمیان جرگے کے ذریعے تصفیہ ہوا جس کے بعد ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کی منت سماجت پر ہندو برادری نے انہیں معاف کر دیا گیا اور ہندو کمیونٹی کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ اُنہیں آئینِ پاکستان کے تحت حاصل تمام حقوق دیے جائیں گے۔
البتہ، اب ہندو کمیونٹی کا کہنا ہے کہ ریسٹ ایریا کے مقام پر ایک اینٹ بھی نہیں لگ سکی جب کہ محکمہ داخلہ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کو بھیجے گئے مراسلے میں ایف آئی آر واپس لینے کا کہہ دیا جس پر اُنہیں تشویش ہے۔
ہفتے کو پریم تلریجا اپنی برادری کے ساتھ صوبۂ سندھ سے اپنے پیشوا شری پرم ہنس جی مہاراج کی 102 ویں برسی کے موقع پر کرک کے علاقے ٹیری پہنچے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر وہ عموماً ایک یا دو دن قیام کرتے ہیں۔ تاہم اس دفعہ ان کا قیام محض ایک گھنٹہ ہی رہا۔ کیوں کہ خواتین اور بچوں کی موجودگی میں بیت الخلا کی سہولت کے بغیر زیادہ دیر تک قیام نہیں ہو سکتا تھا۔
مندر کی تاریخ
ہندور رہنما پریم تلریجا کے مطابق شری پرم ہنس جی مہاراج نے ٹیری میں مندر کی بنیاد 1904 میں رکھی۔ سن 1919 میں انتقال کے بعد ان کی سمادھی مندر میں ہی بنائی گئی۔ جس کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے ہندو برادری کے افراد آتے ہیں۔
پریم تلریجا کے مطابق شری پرم ہنس جی مہاراج کو ہندو مذہب میں بہت بڑا مقام حاصل ہے اور انہیں مراقبے کی حالت میں دفن کیا گیا ہے۔
ہندو برادری کے مطابق پہلی دفعہ 1997 میں مندر کو مشتعل ہجوم کے حملے میں مسمار کیا گیا تھا اور سپریم کورٹ کے 2015 کے فیصلے کے مطابق اس کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی۔
البتہ، 30 دسمبر 2020 کو ایک اور حملے میں مندر کو دوبارہ مسمار کرنے کے بعد نذرِ آتش کیا گیا۔
سپریم کورٹ کا نوٹس
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے مندر نذرِ آتش کرنے کے واقعے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ جن لوگوں نے مندر جلایا ہے، ان سے توڑ پھوڑ کرنے پر ریکوری کی جائے تاکہ وہ یہ کام دوبارہ نہ کر سکیں۔ نیز مندر کی تعمیر چھ ماہ میں مکمل کی جائے۔
انتظامیہ کی مبینہ سست روی
ٹیری سے تعلق رکھنے والے صحافی وسیم خٹک کا کہنا ہے جو معاملہ مندر جلانے کی اصل وجہ بنی تھی اسے انتظامیہ نے تاحال حل نہیں کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وسیم خٹک نے بتایا کہ ریسٹ ایریا کے لیے مخصوص مقام پر ابھی تک کام شروع نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو برادری کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فریقین کی صلح کے بعد ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کو ضمانت مل گئی۔ لیکن جس بنیاد پر یہ تمام معاملہ ہوا وہ مسئلہ جوں کا توں ہے جس پر ہندو برادری سراپا احتجاج ہے۔
حکومت کا مؤقف
ادھر وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے اقلیتی اُمور وزیر زادہ کیلاش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہندو برادری کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے پورے ہوں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہندو برادری کے ساتھ کیے گئے معاہدے اور صلح نامے کے تحت مندر کی تعمیر تیزی سے جاری ہے جب کہ اس ضمن میں اُن کے تمام خدشات دُور کیے جائیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آرام گاہ کی تعمیر میں تاخیر کا معاملہ اُن کے علم نہیں۔ البتہ وہ مقامی حکام سے رابطہ کر کے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیں گے۔
کرک کے ضلعی پولیس آفیسر ہاروں راشد کے مطابق مندر کی تعمیر کا کام سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جاری ہے۔ اب تک 70 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے اور امید ہے کہ باقی ماندہ کام ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے شری پرم ہنس جی مہاراج کے جنم دن کے موقع پر ہندو برادری کی سیکیورٹی کے لیے تمام انتظامات مکمل کیے ہوئے ہیں۔