پاکستان کی سپریم کورٹ نے دو ہفتوں میں کرک مندر کی دوبارہ تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا ہے اور حکام سے مندروں اور گردواروں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی ہے کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی زمینوں سے تجاوزات ختم کی جائیں اور زمینوں پر قبضے میں ملوث اہل کاروں کےخلاف کارروائی کی جائے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرک واقعے سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔ جن لوگوں نے مندر جلایا ان سے پیسے وصول کیے جائیں۔ جب تک ان لوگوں کی جیب سے پیسے نہیں نکلیں گے یہ دوبارہ یہی کام کریں گے۔
کرک میں مندر جلائے جانے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ سماعت میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ پولیس چوکی مندر کے ساتھ ہے۔ یہ واقعہ کیسے ہو گیا؟ اتنے لوگ جمع تھے آپ کی خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟
آئی جی پولیس خیبرپختونخوا ثنا اللہ عباسی نے الزام عائد کیا کہ حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علما اسلام کے مقامی رہنما مولانا فیض اللہ نے اجتماع کو اسپانسر کیا تھا۔ چھ علما میں سے صرف مولوی شریف نے احتجاج پر اکسایا۔
واقعے میں ملوث 109 افراد گرفتار، 92 اہل کار معطل
آئی جی پولیس کا مزید کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث 109 افراد گرفتار ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) سمیت ڈیوٹی پر مامور 92 اہل کاروں کو معطل کیا گیا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اہل کاروں کی صرف معطلی کافی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مندر کی تعمیر کے لیے مولوی شریف سے پیسے لیے جائیں۔
چیف جسٹس نے متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر سرکاری ذہنیت لے کر نہ بیٹھیں۔ آپ کے ادارے کے ملازمین مندر کی زمینوں پر کاروبار کر رہے ہیں۔ انہیں گرفتار کریں۔ کرک مندر دوبارہ تعمیر شروع کرائیں۔
چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت سمادھی کی اپنے خرچے پر دوبارہ تعمیر کرے گی۔
صوبائی متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ سمادھی ہندو کمیونٹی خود چلاتی ہے۔ مندر فعال نہیں تھا اس لیے متروکہ وقف املاک بورڈ کا عملہ یہاں نہیں ہوتا۔
'اس مندر میں 1997 میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی'
چیئرمین ہندو کونسل رمیش کمار نے کہا کہ مندر پر میلے بھی لگتے ہیں اور ہر ماہ 300 سے 400 ہندو حاضری بھی دیتے ہیں،1997 میں بھی اس مندر کو توڑا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کے انکار کے بعد ہندو کونسل نے اپنے فنڈز سے مندر کے لیے پیسے دییے۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اپنی عمارتیں بنانے کے لیے متروکہ وقف املاک بورڈ کے پاس پیسہ ہے، لیکن ہندوئوں کے لیے نہیں؟
چیئرمین بورڈ کی کارکردگی رپورٹ بھی طلب
عدالت نے فعال اور غیر فعال مندروں، متروکہ وقف املاک بورڈ کی زمینوں کے مقدمات کی تفصیلات اور چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کی کارکردگی رپورٹ 2 ہفتے میں طلب کی ہے۔ جب کہ متروکہ وقف املاک بورڈ خیبر پختونخوا کو اقلیتی کمیشن سے مشاورت کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ سماعت کا تفصیلی حکم نامہ بعد میں جاری کریں گے
کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔
سماعت کے بعد ہندو کونسل کے چیئرمین رمیش کمار نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ حکومت مخالف تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطا الرحمٰن نے فون کیا اور کہا ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مندر جلایا ان کا تعلق اب جے یو آئی (ف) سے نہیں ہے۔
آئی جی پولیس ثنا اللہ عباسی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مولوی شریف کا جے یو آئی سے تعلق نہیں۔ بلکہ اس واقعے کا کسی مذہبی جماعت سے تعلق نہیں۔ مولوی شریف نے اجتماع میں تقریر کر کے لوگوں کو اشتعال دلایا۔
ایک رکنی کمیشن کی رپورٹ
سپریم کورٹ میں گزشتہ روز ایک رکنی کمیشن نے خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں مندر جلانے کے معاملے پر رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں کمیشن نے مندر جلانے کی جامع تحقیقات اور وقوع سے متعلق تمام شہادتیں اور شواہد اکٹھے کرنے کی سفارش کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق وقوع کے مرکزی ملزم مولوی شریف نے عوام کو اشتعال دلایا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی جی کے ذریعے خیبرپختونخوا حکومت پولیس کردار پر بھی تحقیقات کرائے۔
یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ملوث ملزمان کو مثالی سزائیں دی جائیں اور حکومت، متروکہ وقف املاک بورڈ مل کر مندر کی زمین پر قبضہ ختم کرائیں۔
پولیس کا 350 افراد کے خلاف مقدمہ
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں مندر میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ ہوا تھا جس کے الزام میں مرکزی ملزم سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔
کرک کے علاقہ ٹیری میں ہندوؤں کے پیشوا، پرم ہنس کی سمادھی اور اس کے ساتھ واقع مندر میں توڑ پھوڑ کے الزام میں 350 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
کرک کے ضلعی پولیس افسر عرفان اللہ خان نے جمعرات کو میڈیا کو بتایا تھا کہ گرفتار کیے جانے والوں میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما بھی شامل ہیں جن میں پارٹی کے ضلعی سربراہ مولانا میر زاقیم خان اور صوبائی رہنما رحمت سلام خٹک بھی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے واقعے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے پانچ جنوری کو معاملے پر سماعت کے لیے متعلقہ حکام کو طلب کیا تھا۔