صوبہ پنجاب کی تحصیل وہاڑی کے نواحی موضع لڈن کی ایک چھوٹی سی بستی میں تین فروری کی رات ایک خوفناک واقعہ ہوا۔ دل دہلادینے والا واقعہ۔۔!! ایک سنگدل باپ نے اپنی ہی پندرہ سالہ بیٹی کو چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر غیرت کے نام پربجلی کا کرنٹ لگا کر قتل کردیا۔
پولیس کے مطابق موضع لڈن کے رہائشی مختار احمد نے آٹھویں کلاس کی طالبہ رفیعہ کو فیاض احمد کے ساتھ مل کر پہلے دودھ میں نشہ آور دوا ملا کر پلائی، پھر بجلی کی ننگی تار لگا لگا کر رفیعہ کو بے دردی سے قتل کردیا۔ پولیس نے شک کی بنیاد پر تفتیش کی تو ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا اور یوں دونوں ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا۔
جنوری میں بہاولپور کی بائیس سالہ صائمہ بی بی کے ساتھ اس سے بھی برا ہوا۔ وہ پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی مگر گھروالوں کے ساتھ ساتھ قریبی رشتے داروں کو بھی یہ منظور نہ ہوا اور بات بلآخر جرگے کے انعقاد تک جاپہنچی جہاں یہ فیصلہ ہوا کہ اس نے گھر سے غیر مرد کے ساتھ فرار ہوکرجو جرم کیا ہے اس کی سزا موت ہے لہذا اسے رشتے داروں نے ہی قتل کردیا۔
میڈیا میں اطلاعات آنے کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے واقعے کافوری نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق صائمہ کے جسم کو جگہ جگہ سے بجلی سے جلاکر مارا گیا تھا جبکہ اس کے رشتے داروں کا کہنا تھا صائمہ نے خودکشی کی ہے۔ دیہہ حقہ، جہاں صائمہ قتل ہوئی وہاں کے پولیس افسرافضل لودھی کا کہنا ہے کہ صائمہ کی لاش کے لئے پولیس نے چھاپا مارا تھا۔ پولیس کو فون پرقتل کی خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی تھی۔
غیرت کے نام پر قتل پاکستانی معاشرہ کا بدنما داغ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات خود رو پودوں کی طرح بڑھتے جارہے ہیں۔ پاکستان حقوق انسانی کمیشن کے مطابق سال 2009ء میں 600 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ اس سے پہلے سالوں میں یہ تعداد کم تھی۔ قتل ہونے والی چھ سو خواتین کی تعداد غیر معمولی ہونے کے ساتھ ساتھ دل دہلادینے والی ہے۔ پاکستان میں عموماً پسندکی شادی کرنے والے اورغیر مرد سے تعلقات کے شبہے میں بھی انسانی جانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بیشتر قتل کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے کیوں کہ اس قسم کے واقعات عام طور پر دور افتادہ اور دیہی علاقوں میں ہوتے ہیں اور انہیں انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں اٹھارہ سال کی لڑکیوں کو قانونی طور پر اپنی مرضی سے شادی کا حق حاصل ہے مگر روایتی طور پر وہ والدین کی مرضی کے مطابق شادی کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ یہ لڑکیاں جب خود ماں بنتی ہیں تو بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان کی لڑکیاں ان کی مرضی کے مطابق شادی کریں اور یوں یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا آرہا ہے ۔ دیہات اور چھوٹے علاقوں میں اگر لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے یا کسی ہم عمر لڑکے سے ہنس بول بھی لے تو اس پر ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر اسے غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے ۔
قانون کی نظر میں یہ اقدام قتل ہے جبکہ اسلامی قوانین کے تحت لواحقین کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ملزم کو معاف کردیں اور قتل کے بدلے خون بہا لے لیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ خواتین کو دیگر مختلف طریقوں سے بھی گزند پہنچائی جاتی ہے جن میں خواتین کو گنجا کردینا یا ان کی ناک اور کان کاٹ دینا شامل ہے۔