|
بدھ کو امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان میں ڈونلڈ لو کی گواہی کے دوران پاکستان کی معاشی صورتِ حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی حکام کی جانب سے پاکستان کے خراب معاشی حالات پر تبصرے سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
امریکی معاون وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت بھاری قرضوں کی واپسی کا سنگین چیلنج درپیش ہے جس میں گزشتہ دہائی میں چین سے لیے گئے بھاری قرضے بھی شامل ہیں۔
ڈونلڈ لو نے امریکی ایوانِ نمائندگان کو مزید بتایا کہ اس سال پاکستان کی حکومت کی آمدنی کی 70 فی صد سے زائد رقم قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے جانے کی توقع ہے۔
اس دوران رُکن کانگریس جو ولسن نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستانی عوام کے لیے انتہائی تباہ کن اور خوفناک ہے۔
پاکستان پر قرضوں کا بوجھ کتنا ہے؟
اسلام آباد کے تھنک ٹینک 'تبادلیب' کی گزشتہ ماہ سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے ذمے 271 ارب ڈالر کے قرضے اور دیگر بیرونی ادائیگیاں ہیں۔
اُن کے بقول اس کی مالیت پاکستانی روپوں میں 77 ہزار ارب روپے سے زائد بنتی ہے اور یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کا 76 فی صد سے بھی زائد ہے۔ 271 ارب ڈالر میں سے حکومت کے ذمے 135 ارب ڈالر کے قرضے ہیں اگر صرف بیرونی قرضوں کی بات کی جائے تو یہ پاکستان کے کُل جی ڈی پی کا 42 فی صد بنتا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں امریکی ادارے 'ایڈ ڈیٹا' کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2000 سے 2021 کے دوران چین کی جانب سے پاکستان کو 70 ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی گئی جس میں سے 98 فی صد مختلف منصوبوں میں قرض کی شکل میں تھی۔
رپورٹ کے مطابق دو فی صد رقم ایسی تھی جو امداد کی صورت میں دی گئی۔ اس دوران پاکستان، چین کی جانب سے امداد حاصل کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک رہا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ چین کی حکومت اور مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کے لیے مجموعی طور پر 386 منصوبوں کے لیے 100 ارب امریکی ڈالر کا وعدہ کیا گیا تھا جو ایڈجسٹمنٹ کے بعد 68 ارب ڈالر رہی۔
اس میں سے توانائی کے منصوبوں پر 26 ارب ڈالر (40 فی صد)، بجٹ سپورٹ کے لیے 21 ارب ڈالر، ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے شعبے میں 10 ارب ڈالر جب کہ بینکنگ اور فنانشل سروسز کی مد میں سات ارب ڈالر فراہم کیے گئے۔
'پاکستان کو سیاسی اور سیکیورٹی مسائل سے نمٹنے کے لیے فعال معیشت کی ضرورت ہے'
بدھ کو امریکی ایوانِ نمائندگان کے سامنے دی گئی شہادت میں ڈونلڈ لو نے اصرار کیا کہ پاکستان کو معاشی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے اور اسے نجی شعبے کی سربراہی میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو پاکستانی عوام کے لیے معاشی نمو فراہم کرے اور مزید قرضوں کی کھائی میں نہ ڈالے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام پرامن، جمہوری اور خوشحال ملک کے مستحق ہیں۔ ہماری توجہ پاکستان کے معاشی استحکام پر ہے۔ پاکستان کو اپنے سماجی، معاشی مسائل کے حل اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فعال معیشت کی ضرورت ہے۔
'معاشی بحران کی سنگینی پر امریکی تشویش حقیقت پر مبنی ہے'
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے استحکام کے معاملے پر واشنگٹن ڈی سی میں ہمیشہ ہی تشویش پائی جاتی ہے اور حالیہ معاشی بحران نے اس تشویش کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
ماہر معاشیات اور بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق پاکستان میں معاشی بحران کی سنگینی کی وجہ سے امریکی خدشات کو حقیقی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے اختتام پر پاکستان کا مالی خسارہ اس کے جی ڈی پی کا نو فی صد ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ اس قدر بڑے خسارے سے نہ صرف حکومت چلانا مشکل ہے بلکہ معیشت کی خراب صورتِ حال سے تو ریاست کی عمل داری کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے معاشی اشاریے کیا تصویر پیش کر رہے ہیں؟
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو جہاں اگلے مسلسل تین مالی سالوں میں 25۔25 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں وہیں جاری کھاتوں (کرنٹ اکاونٹ) کا خسارہ اس سال بھی 99 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جو گزشتہ سال کے پہلے آٹھ ماہ میں تو کم ہے اور اس میں 74 فی صد کی بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔
لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں۔ اس طرح جہاں حکومت بھاری ٹیکس ریونیوز سے محروم رہتی ہے وہیں معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں برآمدات میں سات فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ بڑھ کر 23 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔
معاشی ماہرین کے خیال میں یہ اضافہ انتہائی کم ہے اور ملک کی برآمدات گزشتہ کئی سال سے سالانہ 30 ارب ڈالر پر کھڑی ہے۔ جب کہ درآمدات میں بھی چار فی صد کمی دیکھی گئی ہے۔
اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں بھیجنے والی رقوم میں بھی اضافے کے بجائے ایک فی صد کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اسی طرح حکومت پاکستان کے مقامی قرضوں میں 10 فی صد کا بڑا اضافہ دیکھا گیا اور غیر ملکی قرضوں کی رفتار میں بھی ایک فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ڈاکٹر اکرام کا مزید کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ کو پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی پر بھی تشویش ہے اور اس کا اظہار کئی امریکی اہلکار اور رہنما پہلے بھی کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر اکرام کے بقول پاکستان اس وقت بھی معاشی تناؤ کے ساتھ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا بھی شکار ہے۔ ایسی صورتِ حال میں یہ امریکی مفاد میں نہیں کہ یہاں اندرونی خلفشار بڑھے۔
ان کے خیال میں ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے اسٹینڈ بائی معاہدے کرنے اور اس کی تمام اقساط حاصل کرنے کے سلسلے میں بھی پاکستان کی مدد کی ہے۔ جب کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان نئے وسط مدتی دورانیے کے پروگرام پر مذاکرات بھی شروع ہونے جا رہے ہیں جس پر آئی ایم ایف نے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
ایوانِ نمائندگان میں سماعت کے دوران امریکی معاون وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان عوامی سطح پر طویل شراکت داری کی تاریخ ہے۔ ہم اسے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح امریکی حکومت دونوں ممالک کی کاروباری برادری کے درمیان بھی تعلقات کو وسعت دینا چاہتی ہے۔
کیا پاکستان امریکی مخالفت کے باوجود ایران سے گیس خرید پائے گا؟
دوسری جانب امریکی حکام نے برملا کہا ہے کہ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد کے خلاف ہیں اور اسے روکنے کے لیے بھی اقدمات کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ اس طرح کے منصوبے کے لیے فنڈ کہاں سے آئیں گے۔ ان کے خیال میں بین الاقوامی ڈونرز بھی ایسے منصوبوں کے لیے فنڈ کے اجرا میں دلچسپی نہیں لیں گے۔
توانائی امور کے ماہر فرحان اختر کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کو توانائی کے جس بحران کا سامنا ہے اس میں ایران سے سستی گیس حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہو چکا ہے۔ لیکن مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کا مؤقف ہے کہ ایران سے گیس حاصل کرنے کے لیے پاکستان، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا دیگر بین الاقوامی ڈونرز کے فنڈ استعمال نہ کرے۔ بلکہ اس منصوبے کو ترک کردیا جائے۔
ادھر پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کے بیان پر کہا ہے کہ وہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان نے بارہا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر اپنے عزم کی تجدید کی ہے، یہ پائپ لائن پاکستان اپنے علاقے میں تعمیر کر رہا ہے اور پاک ایران گیس پائپ لائن کے بقیہ حصے کی تعمیر کا فیصلہ حکومتِ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہو گا۔
فورم