پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ایک جانب وفاقی حکومت نے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ضمانت لی ہے، تو دوسری جانب ان کی جماعت کراچی سے قومی اسمبلی کی اپنی نشست دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے البتہ ووٹنگ کی شرح انتہائی کم رہی۔
سیاسی مبصرین تحریک انصاف کے رکن عامر لیاقت حسین کی موت سے خالی ہونے والی کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 245 پر پی ٹی آئی کی کامیابی کو ملک میں موجودہ سیاسی ماحول اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے اگلے مرحلے سے قبل اہم قرار دے رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 245 کے ضمنی الیکشن میں تحریکِ انصاف کے امیدوار محمود باقی مولوی 29 ہزار 475 ووٹ لے کر غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کامیاب قرار پائے ہیں۔ محمود مولوی صنعت کار اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خصوصی مشیر برائے بحری امور بھی رہ چکے ہیں۔
این اے 245 سے دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے معید انور نے غیر حتمی نتائج کے مطابق 13 ہزار 193 ووٹ حاصل کیے۔
اسی طرح آزاد حیثیت سے کھڑے ہونے والے امیدوار اور ایم کیو ایم کے سابق کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار نے تین ہزار 479 ووٹ جب کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار نے نو ہزار 836 ووٹ حاصل کیے۔
پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سید حفیظ الدین صرف ایک ہزار 81 ووٹ حاصل کر سکے۔
ایسے حلقے میں جہاں ووٹرز کی کل تعداد پانچ لاکھ 15 ہزار سے زائد تھی، وہاں ضمنی الیکشن میں صرف 11.8 فی صد یعنی کل 60 ہزار 336 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یوں ڈالے گئے ووٹرز میں سے 48 فی صد ووٹ تحریکِ انصاف کو ملے جب کہ چار لاکھ 54 ہزار سے زائد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔
سال 2018 کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین یہاں سے 56 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جب کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے 35 ہزار 247 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس وقت بھی تحریک لبیک کے امیدوار نے یہاں سے 20 ہزار 580 ووٹ لیے تھے۔ تاہم اس سے پہلے اس حلقے سے متحدہ قومی موومنٹ کامیاب ہوتی رہی تھی۔
بعض مبصرین اس حوالے سے یہ بات بھی اہم قرار دے رہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین نے اس حلقے کے عوام سے ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی، جس پر ممکنہ طور پر ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کیا۔
کم ووٹنگ کی شرح کے حوالے سے تجزیہ کار اور صحافی مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ ووٹ کم ڈالنے کی شرح کی وجہ الطاف حسین کی جانب سے بائیکاٹ نہیں بلکہ ایم کیو ایم پر لوگوں کا عدم اعتماد ہے جو بالکل واضح نظر آرہا ہے۔
مجاہد بریلوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایک وقت میں ایم کیو ایم ضمنی انتخابات میں بھی لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کر لیتی تھی جب کہ حال ہی میں جون میں بھی ایم کیو ایم، جس کی قیادت خالد مقبول صدیقی کے پاس ہے، کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 240 میں اپنی نشست محض 65 ووٹوں سے بچانے میں کامیاب ہوئی تھی، البتہ اس حلقے میں جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے، یہ جماعت کوئی متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔
مجاہد بریلوی کے مطابق دوسری جانب تحریکِ انصاف کی کامیابی کی وجہ اس کی کارکردگی نہیں بلکہ عمران خان کی مقبولیت کی لہر بنی۔ ان کے مطابق اپریل کے بعد سے ملک کے موجودہ حالات میں عمران خان کی مقبولیت میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اسی نے کراچی کے اس حلقے کے ووٹرز کو بھی کسی حد تک متاثر کیا۔
تجزیہ کار اور مظہر عباس کہتے ہیں کہ این اے 240 اور این اے 245 کے نتائج میں ایک بات یکساں تھی اور وہ یہ ہے کہ دونوں ضمنی انتخابات میں انتہائی کم ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ان کے مطابق این اے 240 میں 8.38 فی صد جب کہ این اے 245 میں 11.3 فی صد ووٹنگ ٹرن آؤٹ رہا۔
مظہر عباس کے بقول کراچی سے دونوں بڑی جماعتوں کے لیے یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے میں کیوں ناکام رہیں۔
مجاہد بریلوی اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ ضمنی الیکشن کے نتائج یقینی طور پر 28 اگست کو صوبے کے دو ڈویژن میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر بھی کسی حد تک اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں شدید بارش اور 23 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیے جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومت کی درخواست پر یہ انتخابات ایک بار پھر ملتوی نہ کر دے
ان کے مطابق حیدر آباد ڈویژن کے تمام نو اضلاع اور کراچی ڈویژن کے ایک ضلعے کے کچھ علاقوں کو شدید بارش اور اس سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے آفت زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ بلدیاتی انتخابات اس بنا پر ایک بار پھر ملتوی کر دیے جائیں۔
ضمنی الیکشن کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی اور ایک کتاب کے مصنف فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا وفاق میں اتحادی حکومت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ موجودگی کو اس کے حامی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جب کہ ٹی ایل پی کا اکثریتی ووٹ بھی ماضی میں ایم کیو ایم کا ووٹر رہا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فیض اللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح فاروق ستار نے بھی ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا جب کہ پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) اس ووٹ بینک کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بنے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے بانی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ الطاف حسین کے ووٹ نہ ڈالنے کی اپیل نے بھی اس ضمنی الیکشن پر اثر ڈالا۔ اگر الطاف حسین بائیکاٹ کی اپیل نہ کرتے تو ممکن تھا کہ ایم کیو ایم کسی مقابلے کی پوزیشن میں نظر آتی۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف بھی اردو بولنے والوں کا بڑا ووٹ بینک اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
فیض اللہ خان نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کی قیادت میں پائے جانے والے اختلافات کی وجہ سے بھی پارٹی کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایم کیو ایم نے دونوں ضمنی انتخابات کے دوران کہیں بھی مؤثر انتخابئ مہم نہیں چلائی۔
ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات میں خالد مقبول صدیقی، عامر خان یا کسی بھی اہم پارٹی رہنما نے کوئی قابل ذکر کارنر میٹنگ تک نہیں کی جو ایم کیو ایم کا ہمیشہ سے خاصا رہا ہے۔ اس کے برعکس تحریکِ انصاف کے امیدوار نے عمران خان کے مخصوص بیانیے کی بھرپور تشہیر کی جب کہ حلقے میں انہوں نے ایک اچھی انتخابی مہم چلائی۔