رسائی کے لنکس

ترکیہ: معاشی بحران کے باوجود صدر ایردوان کی مقبولیت کیوں برقرار ہے؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان گزشتہ دو دہائیوں سے اقتدار میں ہیں۔ اس دوران اپنے خلاف ہونے والے احتجاج، کرپشن کے الزامات اور فوج کی بغاوت کی ایک کوشش کے باوجود اقتدار پر ان کی گرفت کمزور نہیں پڑی ہے۔

اس وقت ترکیہ کے عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد رواں برس فروری میں آئے زلزلے سے ہونے والی تباہی کے اثرات سے نکلنے کی جستجو کررہی ہے۔ حکومت کی جانب سے بحالی کی کوششوں میں سست روی کے باعث زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والوں کو مشکلات کا بھی سامنا ہے۔

ان حالات میں بھی ترکیہ کے حالیہ صدارتی الیکشن میں طیب ایردوان سب سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ منتخب ہونے کے لیے مطلوب 50 فی صد ووٹ حاصل نہیں کر پائے ہیں اور اب رن آف مرحلے کے لیے ان کا مقابلہ اپوزیشن کے امیدوار کمال کلچدار اولو سے ہوگا اور اس مرحلے میں بھی انہیں فیورٹ قرار دیا جارہا ہے۔

طیب ایردوان کو حالیہ الیکشن میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے وہ اقتدار میں بھی ہیں اور عوام میں مقبول بھی؟

ایردوان کی حکمتِ عملی

رجب طیب ایردوان کو ترکیہ کے قدامت پسند مذہبی طبقے میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ یہ طبقہ تقریباً ایک صدی سے ترکیہ میں رائج سیکیولر نظام کے مقابلے میں مذہبی اقدار کو فروغ دینا چاہتا ہے۔

ایردوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے حکومتی ذرائع کا استعمال کرکے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ انہوں نے اپنے حامیوں کی کی حمایت برقرار رکھنے کے لیے انفرااسٹرکچر پر بے دریغ وسائل صرف کیے اور اپنے خلاف تنقیدی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے میڈیا پر کنٹرول کیا۔

عالمی سطح پر ترکیہ کے مضبوط امیج اور جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے بھی انہوں ںے ترکوں کے بڑے طبقے کو اپنا حامی بنایا۔

بعض مبصرین کے مطابق سنگین معاشی حالات کے باوجود ایردوان کی مقبولیت برقرار رہنے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے ووٹر سمجتھے ہیں کہ اس مرحلے پر ملک کو استحکام کی ضرورت ہے۔

واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار گونل تول کا کہنا ہے کہ قومی بحران کے دور میں لوگوں کا رجحان کسی ایک لیڈر کی جانب ہی ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں ترکیہ کے عوام اس بحران سے نکالنے کے لیے اپوزیشن کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد نہیں رکھتے۔

طیب ایردوان اگر 28 مئی کو ہونے والے رن آف مرحلے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ 2028 تک ملک کے صدر بن جائیں گے۔ انہوں نے پہلے مرحلے میں 49.5 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اپنے مدمقابل اپوزیشن کے سوشل ڈیموکریٹ امیدوار کمال کلچدار اولو پر صرف چار فی صد کی برتری حاصل ہے۔ کمال کلچدار اولو 2010 سے سیاسی میدان میں رجب طیب ایردوان کے مدمقابل ہیں۔

صدارتی الیکشن میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ لینے والے سینان اوعان نے پیر کو صدر ایردوان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سینان اوعان نے اگرچہ مجموعی طور پر کاسٹ کیے گئے ووٹوں میں سے لگ بھگ پانچ فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن ایردوان اور کلچدار اولو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے کی وجہ سے سینان اوعان کی حمایت کو طیب ایردوان کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔

الیکشن کے دوسرے مرحلے میں طیب ایردوان کے مد مقابل کمال کلچدار اولو ایک معیشت دان ہیں۔ ان کی عمر 74 برس ہے اور ان کا تعلق ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) سے ہے۔ انہیں مارچ میں چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد نے صدارتی امیدوار نام زد کیا تھا۔

انہوں نے 2010 میں سی ایچ پی کی قیادت سنبھالی تھی لیکن اس کے بعد ہونے والے انتخابی معرکوں میں وہ صدر ایردوان کی اے کے پارٹی سے برابری کا مقابلہ نہیں کرسکے۔

وہ 2002 میں پہلی بار سی ایچ پی کی جانب سے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ جدید ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے سی ایچ پی کی بنیاد رکھی تھی۔

کمال کلچدار اولو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایردوان کی معاشی اور آزادیٔ اظہار پر کریک ڈاؤن جیسی آمرانہ پالیساں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

خطے کے حالات

ترکیہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے دفاعی اتحاد نیٹو کا اہم رکن ہے۔ اس اتحاد میں شامل ممالک میں ترکیہ کی فوج دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ ایردوان کے دورِ اقتدار میں ترکیہ نے جہاں نیٹو میں کئی بار اپنی اہمیت منوائی ہے بلکہ یہ ایک مشکل اتحادی بھی ثابت ہوا ہے۔

ترکیہ نے سوئیڈن کی نیٹو میں شمولت کو ویٹو کیا اور روس سے میزائل دفاعی نظام خریدا جس کی وجہ سے امریکہ نے اسے اپنے فائٹر جیٹ پروگرام سے خارج کردیا۔ اس کے باوجود ترکیہ نے بحیرۂ اسود کے ذریعے اناج کی تجارت کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی سے روس اور یوکرین کے درمیان معاہدے میں اہم کردار ادا کیا۔

شام میں جب 2011 میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو ایردوان نے بشار الاسد کے مقابلے میں اپوزیشن کے جنگجوؤں کی حمایت کی۔ شام میں لڑائی کی وجہ سے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد نے ترکیہ کا رُخ کیا۔ ایردوان یورپی ممالک کو اس بات سے بھی ڈراتے رہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی سرحدیں کھول کر ان پناہ گزینوں کا رُخ یورپ کی جانب موڑ سکتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے پناہ گزینوں کے معاملے کو سفارتی حربے کے طور پر استعمال کیا۔

ایردوان نے شمالی شام میں فعال ترکیہ مخالف کرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں کرکے اس خطے میں ترکیہ کا دائرہ اثر وسیع کیا۔ کرد گروپس کے خلاف ایردوان کی کارروائیوں کی وجہ سے انہیں ترک قوم پرست گروپس میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔

گزشتہ دو دہائیوں میں رجب طیب ایردوان نے دفاعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا۔ اسی دور میں ترکیہ نے مقامی سطح پر ڈرونز، جنگی طیاروں اور بحری جہازوں اور پہلے ڈرون بردار بیٹرے بنانا شروع کیے۔ دفاعی قوت میں اضافے کی اس پالیسی کو ملنے والی پذیرائی کی جھلک بھی 14 مئی کو ایردوان کو ملنے والے ووٹوں میں نظر آتی ہے۔

سیاسی بیانیے کی برتری

مقامی سطح پر ایردوان نے اسلامی تعلیمات اور مذہبی علامتوں کو فروغ دے کر اپنے حامیوں کا ایک مضبوط حلقہ پیدا کیا۔ انہوں نے ترکیہ کی سیکیولر فوج کو اقتدار کی دوڑ سے باہر کیا اور خواتین پر دفاتر اور اداروں میں اسکارف پہننے کی پابندی ختم کی۔

ایردوان نے روایت پسند حامیوں کی نظر میں اپنے مد مقابل کمال کلچدار اولو اور حزب اختلاف کو تحقیر کا نشانہ بنانے کے لیے انہیں ایل جی بی ٹی کیو حقوق کے حامی کے طور پر پیش کیا۔

ماہرین کے مطابق میڈیا پر مضبوط گرفت کی وجہ سے ایردوان کا پیغام موثر انداز میں لوگوں تک پہنچتا ہے۔

ترکیہ میں ریڈیو اور ٹیلی وژن پر نظر رکھنے والے ادارے کے رکن الہان تاسجی کے مطابق سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی نے یکم اپریل کے بعد ایردوان کو 48 گھنٹوں کا ایئر ٹائم دیا جب کہ ان کے مقابلے میں کمال کلچدار اولو کو صرف 32 منٹ دیے گئے۔

کلچدار اولو نے اپنی تقاریر میں سر ڈھانپنے سمیت خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے کے وعدے بھی کیے لیکن وہ قدامت پسند ووٹروں کی توجہ حاصل نہیں کرپائے۔

تجزیہ کار گونل تول کا کہنا ہے کہ کمال کلچدار اولو نے اگرچہ اپوزیشن کا امیج تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ایردوان نے ایسا بیانیہ تشکیل دیا جس کی وجہ سے قدامت پرست خواتین میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ اگر اپوزیشن اقتدار میں آگئی تو ان سے سر ڈھانپنے کا حق چھین لیا جائے گا۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ترکیہ کے امور کے ماہر سونر جاگاپاتے کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ایردوان کا کنٹرول اتنا مضبوط ہے کہ وہ اپوزیشن کو یا تو دہشت گرد ثابت کردیتے ہیں یا اپنی تشریح کے مطابق کمزور مسلمان۔

ان کا کہنا ہے میڈیا بحث کا رُخ اس جانب موڑ دیتا ہے کہ ایردوان کے دور میں ملک کی دفاعی پیداوار میں اضافہ ہوا اور یہ کامیاب حکمت عملی ثابت ہوئی۔

سب سے بڑا خطرہ

صدر ایردوان کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے۔ انہوں ںے تیزی سے کم ہوتی قوتِ خرید کو بچانے کے لیے حکومتی اخراجات میں اضافہ کیا اور اس کے ساتھ شرحِ سود کو بھی انتہائی کم رکھا۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس حکمتِ عملی سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا۔

ایردوان نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا۔ پینشن میں اضافے کی وجہ سے بڑی تعداد میں ملازمین نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس کے علاوہ ایردوان حکومت نے بجلی اور گیس پر سبسڈی دی اور ساتھ ہی مکانات کے لیے جاری کیے گئے قرضے معاف بھی کیے۔

صدر ایردوان نے زلزلے سے تباہ حال علاقوں میں تعمیر نو کا وعدہ کیا۔ اگرچہ ان کی حکومت کو زلزلے کے بعد بحالی میں سست روی کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی پارٹی نے زلزلے سے متاثرہ 11 میں سے 10 صوبوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔

اس تحریر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG