اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے ایک مرکزی راستے پر گزشتہ ہفتے سے دھرنا دینے والی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اپنا دھرنا ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مذہبی و سیاسی جماعت ’تحریک لبیک یا رسول اللہ ‘ نے آٹھ اگست سے اسلام آباد کا ’فیض آباد انٹرچینج‘ دھرنا دے کر بند رکھا ہے۔ احتجاج میں ایک اور جماعت سنی تحریک بھی شامل ہے۔
فیض آباد کی بندش سے خاص طور پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور لوگوں کے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
تحریکِ لبیک کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ حکومت ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں تبدیلی کے بارے میں انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مظاہرین کے وکیل کو دھرنا ختم کرنے کی ہدایت کی۔
جسٹس صدیقی نے کہا کہ دھرنے کے باعث ملازمت پیشہ افراد، طلبہ، بچوں اور بزرگوں کے علاوہ مریضوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
جج نے دھرنے کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب معاملہ عدالت میں آگیا ہے تو خدا کا خوف کریں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ دھرنے والوں نے چیف جسٹس کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے ان پر معافی مانگیں، نیکی کا کام غلط طریقے سے کیا جائے تو وہ غلط ہوتا ہے۔
جسٹس صدیقی نے مذہبی جماعت کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ لوگ قانون کی پابندی کریں، آپ کی پٹیشن کی سماعت دھرنا ختم کرنے سے مشروط ہوگی۔
رواں ہفتے ہی جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکم دیا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ختمِ نبوت سے متعلق ختم کی گئی تمام ترامیم کو معطل کیا جائے۔
جمعرات کو بھی سماعت کے دوران جسٹس صدیقی نے کہا کہ وہ پہلے ہی اس بارے میں حکم دے جا چکے ہیں، اس لیے احتجاج ختم کر دینا چاہیے۔
اُدھر تحریکِ لبیک کے ایک عہدیدار عنایت الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ عدالت کے فیصلے پر"غور کیا جا رہا ہے"، تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ دھرنا فوری طور پر ختم کرنے کا امکان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ کہا ہے کہ آئندہ سماعت سے قبل دھرنا ختم کریں، اور آئندہ سماعت میں ابھی کافی دن ہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے بدھ کی شب اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ حکومت نے انتہائی برداشت کا مظاہرہ کیا ہے اور مختلف سطحوں پر حکومت کی طرف سے مظاہرین سے مذاکرات بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ مظاہرے میں شامل بعض افراد چاہتے ہیں کہ تشدد ہو اور اُن کے پاس اسلحہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن مظاہرین کو بھی حکومت کے صبر کا امتحان نہیں لینا چاہیے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت کسی بھی انتہائی قدم سے قبل پوری کوشش کر رہی ہے کہ بغیر طاقت کے استعمال کے اس مسئلے کو حل کر لیا جائے۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور سردار یوسف سمیت حکومت میں شامل اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے مظاہرین سے یہ اپیل کی جاتی رہی ہے کہ وہ اس دھرنے کو ختم کر دیں۔
انسانی حقوق سے متعلق سرکاری ادارے نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس (این سی ایچ آر) نے بھی دھرنے کے باعث عوام کو درپیش مشکلات کو نوٹس لیتے ہوئے وفاقی اور صوبۂ پنجاب کے متعلقہ حکام سے جواب طلب کر رکھا ہے۔
احتجاجی ریلی میں شریک رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں کی گئی مبینہ تبدیلی کے ان کے بقول ذمے دار وزیرِ قانون زاہد حامد کو برطرف کرے۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وزیرِ قانون کا کوئی کردار نہیں اور حلف نامے میں تبدیلی ایک "کلیریکل" غلطی تھی جس کی نشاندہی کے فوراً بعد ہی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک ترمیم کر کے پرانے حلف نامے کو بحال کر دیا تھا۔