رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف سے معاہدہ: پاکستان کو بجلی کی قیمتیں بڑھانے سمیت کیا کرنا ہوگا؟


حکومت پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ہدایات کے مطابق بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ معاہدے کی روشنی میں حکومت کو گیس کی قیمتیں بڑھانے سمیت کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔

ملک میں بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے نیشنل الیکٹرک پاور اتھارٹی (نیپرا) نے حال ہی میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہوئی ہے اس لیے بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ یوں اس کے مقابلے میں بجلی کی قیمت فروخت کا دوبارہ تعین کرنا ہوگا۔

ماہرین اور خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول ملک میں فی یونٹ بجلی کی قیمت میں ساڑھے تین سے چار روپے فی یونٹ اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے لیے حکومت کو اس شعبے میں بقایاجات کی ادائیگیوں کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔

آئی ایم ایف معاہدہ: حکومت ہر بار بجلی کیوں مہنگی کر دیتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:16 0:00

درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندیوں کا خاتمہ

ماہرین کے مطابق صرف بجلی ہی کی قیمتوں کا دوبارہ تعین اور توانائی میں پائے جانے والے سرکلر ڈیبٹ کا خاتمہ ہی نہیں کرنا ہوگا نہیں کرنا ہوگا بلکہ حکومت کو ملک میں مال درآمد کرنے پر لگائی جانے والی غیر اعلانیہ پابندیوں کو بھی ہٹانا ہوگا۔

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی دی گئی ہدایات کے مطابق درآمدی پابندیوں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا جو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور تیزی سے کم ہوتے زرِمبادلہ کے ذخائر کو کنٹرول کرنے کے لیے لگائی گئی تھیں۔

حکومت کے پاس ڈالر کی کمی کے باعث ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے تاجر اور صنعت کار شدید پریشانی کا شکار رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ملک میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ حالیہ عرصے میں منفی رہی ہے۔

ایکسچینج ریٹ کا تعین مارکیٹ کو کرنے کی اجازت دینی ہو گی'

دوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کو ایکسچینج ریٹ مارکیٹ پر لگائے گئے کنٹرولز کو ختم کرنا ہوگا۔

معاشی ماہر فرحان محمود کا کہنا ہے کہ گزشتہ عرصے میں حکومت نے ڈالر کی قیمت پر غیر اعلانیہ کنٹرول رکھ کر اور اس کی فروخت پر بے جا پابندیاں عائد کر رکھیں ہیں جس کا مقصد روپے کی قدر کو مصنوعی استحکام فراہم کرنا تھا۔

اُن کے بقول اب اس نئے معاہدے کی روشنی میں حکومت نے یہ یقین دلایا ہے کہ وہ ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں کو مارکیٹ پر چھوڑ دے گی اور بازار ہی ان کی اصل قیمت خرید اور فروخت طے کرے گا۔ یوں اب برآمدات کم ہونے سے جہاں روپے کی قدر متاثر ہو گی تو اس کا براہ راست اثر مزید مہنگائی کی صورت میں عوام پر پڑنے کا خدشہ ہے۔

'مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لیے شرح سود بڑھائی جائے'

آئی ایم ایف نے زور دیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مہنگائی کم کرنے کے لیے فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔

ماہر فرحان محمود کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ملک میں مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے مرکزی بینک کو فوری طور پر شرح سود میں اضافہ کرنا ہوگا۔


تاہم فرحان محمود جیسے کئی معیشت دان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ لہر شرح سود بڑھانے یا معاشی اصلاح میں طلب کم کرنے سے قابو میں لائی جاسکتی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ مہنگائی کی بنیادی وجہ رسد اور اس سے جُڑے مسائل ہیں۔ لیکن شرح سود بڑھانے سے ملک میں صنعتوں کا پہیہ متاثر ہوتا ہے۔ یوں پیداوار کم ہونے سے صنعتی ترقی کا عمل رکتا ہے اور مہنگائی کے ستائے شہریوں کو بے روزگاری کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

'سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات لائی جائیں'

پاکستان میں سرکاری کاروباری اداروں میں سے اکثر اس وقت نقصان میں ہیں اور ان کا کُل نقصان مجموعی قومی پیداوار کے 15 فی صد کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ صرف پی آئی اے ہر سال 70 ارب روپے سے زائد کے خسارہ کا باعث بنتی ہے جسے حکومت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے تحت ان اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کرانی یا پھر ان کی نجکاری کرنا ہو گی۔

فنڈ نے پاکستانی حکام سے ان چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل درآمد اور مالیاتی نظم و ضبط کے لیے بھی کہا ہے جن میں افراط زر، مالیاتی خسارہ اور ذخائر کو مستحکم کرنا بھی شامل ہیں۔

کراچی میں مقیم ایک اور ماہر اقتصادیات شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ پالیسیوں کے مستقل نفاذ کے ساتھ ایک مناسب پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے کیوں کہ پاکستان کو غیر یقینی کے سیاہ بادلوں سے نکال کر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی ڈیل نے ڈیفالٹ سے بچایا ہے اور ایسے میں میکرو اور مائیکرو اکنامک انڈیکیٹرز کو مضبوط کرنے اور معاشی اصلاحات کو عملی شکل دینے کے لیے نیا اور نادر موقع ملا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG