بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کا اہم اجلاس بدھ کو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر کے قرض کی تیسری قسط فراہم کرنے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی قسط جاری کرنے کے لیے رکھی گئی تمام پیشگی شرائط پر عمل درآمد کر لیا ہے۔
لہٰذا حکومت کو امید ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے لیے 1.059 ارب ڈالرز کی نئی قسط منظور کر لے گا جس سے پاکستان کو ادائیگیوں کے بحران سے نمٹنے میں کسی حد تک مدد ملے گی۔
اس سے قبل پاکستان ہی کی درخواست پر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا یہ اجلاس دو بار ملتوی بھی کیا جا چکا ہے۔
حکومت نے قسط کی منظوری یقینی بنانے کے لیے پیشگی انتظام کے طور پر پارلیمنٹ سے 'فنانس سپلیمنٹری بل 2021' اور 'اسٹیٹ بینک ترمیمی بل' منظور کرائے ہیں۔
ضمنی فنانس بل اور اپوزیشن جماعتوں کے بقول "منی بجٹ" کے ذریعے مختلف مصنوعات پر 340 ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کیا گیا جس پر حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اسٹیٹ بینک ترمیمی بل میں مرکزی بینک کو مزید خود مختار بنایا گیا ہے جس کے تحت حکومت اب مرکزی بینک سے قرض نہیں لے سکے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدتِ ملازمت کو بھی تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا ہے جس میں مزید توسیع بھی ممکن ہے۔
دوسری جانب حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے حال ہی میں جاری کیے گئے سکوک بانڈز کے ذریعے ایک ارب ڈالرز کی رقم جمع کر لی ہے۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حکومت کو بانڈز کی خریداری کے لیے 2.7 ارب ڈالرز کی پیشکش موصول ہوئی تھی۔ تاہم حکومت نے ایک ارب ڈالرز کے بانڈز سات سال کے لیے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اگر بدھ کو اجلاس میں آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ پاکستان کے لیے قرض کی نئی قسط منظور کر لیتا ہے تو معاشی ماہرین کے مطابق سکوک بانڈز اور آئی ایم ایف کی قسط ملا کر پاکستان کو آئندہ ایک ہفتے میں دو ارب ڈالرز سے زائد رقم مل جائے گی۔ اس رقم سے پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں کسی حد تک استحکام آسکتا ہے۔
دوسری جانب ان خبروں کے ساتھ ہی پاکستانی روپے کی قدر میں بھی معمولی اضافہ ہوا گیا ہے۔ انٹربینک میں بدھ کو ایک امریکی ڈالر 176 روپے 41 پیسے میں فروخت ہو رہا ہے۔
ماہرِ معاشیات عبدالعظیم کہتے ہیں کہ روپے کی قدر میں اضافے کے ساتھ اسٹاک مارکیٹ میں بھی گزشتہ کئی دنوں سے تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط اور سکوک بانڈز کی مد میں ملنے والی رقم سے حکومت کو کچھ دیر کے لیے ہی سہی، مگر 'فسکل اسپیس' میسر آ سکے گا۔
"اس صورتِ حال میں مرکزی بینک کو بھی شرحِ سود مستحکم رکھنے کا موقع مل سکتا ہے لیکن اس کا انحصار آنے والے معاشی حالات پر بھی ہوگا۔"
معاشی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سب کے باوجود دیگر معاشی اشاریے بدستور گراوٹ کا شکار رہیں گے جن میں سرِفہرست پاکستان کا بڑھتا ہوا بیرونی خسارہ ہے جو گزشتہ چھ ماہ کے دوران 25 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے۔
اسی طرح حکومت کا بجٹ خسارہ بھی مجموعی قومی آمدنی یعنی جی ڈی پی کے چھ فی صد سے تجاوز کر چکا ہے جسے ماہرین غیر صحت مند اور غیر مستحکم قرار دے رہے ہیں۔
معاشی امور پر عبور رکھنے والے فہد رؤف کا ماننا ہے کہ حکومت کے بجٹ خسارے میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باوجود ملک میں رواں ماہ قیمتیں نہ بڑھانا بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے حکومت نے تین روپے 70 پیسے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیوٹی لیوی کم کی ہے۔ دوسری جانب ایف بی آر کے محاصل اگرچہ سات ماہ میں 262 ارب روپے بڑھے تو ہیں لیکن گزشتہ دو ماہ سے ایف بی آر ٹیکس کلیکشن کا مطلوبہ ٹارگٹ پورا نہیں کر پا رہا۔
ادھر پاکستان کے ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں افراطِ زر کی شرح دو سال میں سب سے زیادہ ہو گئی ہے۔ رواں سال کے پہلے ہی مہینے یعنی جنوری میں یہ شرح 13 فی صد ریکارڈ کی گئی جب کہ دسمبر 2021 میں یہ 12.3 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔
اسٹیٹ بینک نے ستمبر 2021 میں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی لہر پر قابو پانے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 9.75 مقرر کیا تھا۔ اب بعض معاشی ماہرین یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ مارچ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کو شرحِ سود پھر بڑھانا پڑسکتی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں تیزی اور روپے کی قدر میں استحکام کے باوجود معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے نئے قرضے حاصل کرنے کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ آئی ایم ایف سے قرض کی وصولی کے بعد بعد دیگر مالیاتی ادارے بھی حکومت کو قرض دینے پر رضا مند ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت نجی بجلی گھروں کے گردشی قرضوں کو اتارنے کے لیے ہر ماہ تقریباً 38 ارب روپے کی اضافی ادائیگیاں کرنا پڑ رہی ہیں جب کہ دیگر حکومتی اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔