رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف کی سیلز ٹیکس بڑھانے کی سفارش: 'یہ ہوا تو مہنگائی کا طوفان آئے گا'


پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان 31 جنوری سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان 31 جنوری سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان کی مالی مشکلات بدستور برقرار ہیں اور ایسے میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی طرف سے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کو 17 سے 18 فی صد کرنے کی سفارش سامنے آئی ہے جس سے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایسا فیصلہ کیا گیا تو مہنگائی سے کم آمدنی والا طبقہ زیادہ متاثر ہو گا، اس فیصلے کے بجائے امیر طبقے پر ٹیکس عائد کرنے چاہئیں۔

دوسری جانب وزیرِاعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف بہت ٹف ٹائم دے رہا ہے۔ اس کی شرائط ناقابلِ تصور ہیں۔ لیکن مجبوراً ہمیں پوری کرنی پڑیں گی۔

جمعے کو پشاور میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ ملک کو درپیش معاشی چیلنج انتہائی مشکل ہے لیکن کیا کریں، مجبوری ہے یہ شرائط ہر صورت پوری کرنی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان حالات میں مہنگائی کی شرح 35 فی صد اور سالانہ جی ڈی پی کی شرح 1.5 فی صد تک محدود ہونے کا امکان ہے۔

سعودی عرب پاکستان سے معاشی اصلاحات چاہتا ہے، تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:15 0:00

روپے کی تنزلی

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اس وقت پاکستانی روپے کی تنزلی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت انٹر بینک میں 275 روپے کی حد کراس کرگئی ہے۔

ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر 59 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی کمی سے آٹھ ارب 74 کروڑ 17 لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 27جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے کے اختتام پر غیر ملکی ادائیگیوں کے باعث زرِمبالہ کے مجموعی ذخائر مزید کم ہوگئے ہیں۔

اب اسٹیٹ بینک کے پاس تین ارب آٹھ کروڑ 62 لاکھ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس پانچ ارب 65 کروڑ 55 لاکھ ڈالر ہیں۔

جی ایس ٹی 17 سے 18 فی صد کرنے کی تجویز

تجزیہ کار اور ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافے سے کم آمدنی والوں پر سب سے زیادہ اثر پڑے گا، یہ تجویز انتہائی نامناسب ہے، اس کے مقابلہ میں امیر لوگوں پر انکم ٹیکس عائد کیا جائے۔ یہ وہ افراد ہیں جو دے بھی سکتے ہیں لیکن ان کے مقابلہ میں عام لوگوں پر ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔

معاشی اُمور کے سینئر صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ حکومت جی ایس ٹی کو 18 فی صد کرتی ہے یا نہیں ، اس بات کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا لیکن آئی ایم ایف کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ حکومت کے مالیاتی فرق بہت زیادہ ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے۔ جی ایس ٹی میں اضافے سے فوری طور پر محصولات حاصل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ معاملہ کسی عدالت میں بھی نہیں جاتا لہذا آئی ایم ایف اسے بڑھانے کا کہہ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی سے محصولات تو فوری مل جاتے ہیں لیکن اس سے مہنگائی بھی فوری بڑھتی ہے۔ عوام کو ہر چیز کی خریدوفروخت اور سروسز پر یہ ٹیکس ادا کرنا پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی طرف سے ایک اور شرط بھی سامنے آئی جس کے تحت گریڈ 17 سے 22 تک کے سرکاری افسران کے اثاثوں کی تفصیلات تک مشروط رسائی دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔

سرکاری ملازمین کے لیے اثاثوں کی شرط کے بارے میں شہباز رانا نے کہا کہ یہ تجویز نئی نہیں ہے بلکہ ایک عرصہ قبل یہ تجویز دی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تمام گریڈ 17 سے22 تک کے افسران اپنے اثاثہ جات ڈیکلئیر کریں اور ایف بی آر میں ایک سینٹرلائز ڈیٹا بنایا جائے گا۔

اُن کے بقول اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ اگر کوئی سرکاری افسر بینک اکاؤنٹ کھولتا ہے اور اس میں اچانک کوئی بڑی رقم آتی ہے تو سینٹرلائزڈ ڈیٹا سے معلوم ہو جائے گا یہ رقم کسی اثاثے کی وجہ سے آئی ہے یا پھر کوئی کرپشن کا پیسہ آرہا ہے۔یہ تفصیلات ریکارڈ میں ہوں گی۔ لیکن ان کو پبلک نہیں کیا جاسکے گا۔

تجزیہ کار حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں سرکاری محکموں میں کرپشن بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کو مداخلت کرنا پڑ رہی ہے اور تمام سرکاری ملازمین کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کہا جارہا ہے۔


آئی ایم ایف پروگرام ملے گا یا نہیں؟

آئی ایم ایف کی طرف سے شرائط تو سب سامنے آ رہی ہیں لیکن حتمی فیصلہ کیا ہوگا اور تمام شرائط ماننے پر ملک کی معاشی حالت کیا ہو گی ؟ اس پر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے مطابق نومبر میں ریویو ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستان نے کچھ بھی نہیں کیا۔

اُن کے بقول آئی ایم ایف نے روپے کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق لانے کا کہا تھا لیکن پاکستان نے اس میں تاخیر کی، اب پاکستان کو سب کچھ ایک ساتھ کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے بہت مشکل بھی لگ رہا ہے اور مہنگائی بھی ایک ساتھ ہی آرہی ہے۔

حفیظ پاشا نے کہا کہ پاکستان اگر آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرتا ہے تو پاکستان میں مہنگائی 35 فی صد تک بڑھ سکتی ہے۔یہ ایک بڑا نمبر ہے لیکن پاکستان کے پاس آپشن موجود نہیں ہیں۔

شہباز رانا نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ اب تک بجلی پر ٹیکسز کے حوالے سے بات کی گئی ہے اور یہ امکان ہے کہ مہنگائی کی شرح 29 فی صد تک بڑھ سکتی ہے۔ ساتھ ہی جی ایس ٹی کے بڑھنے سے بھی مہنگائی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک ہونے والی بات چیت کے بارے میں شہباز رانا نے کہا کہ مذاکرات کے پہلے تین دن پاکستان کے حوالے سے حوصلہ افزا نہیں تھے۔ پاکستان نے جو تفصیلات آئی ایم ایف کو دی تھی اور غیرملکی قرضوں کے حوالے سے پاکستان نے جو پلان دیا تھا اس پر بھی آئی ایم ایف اب تک مطمئن نہیں ہے۔

شہباز رانا کے مطابق آئی ایم ایف کا پروگرام صرف اسی صورت میں ملے گا جب پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط قبول کرے گا۔

XS
SM
MD
LG