|
صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد کی پہلی تقریر میں اس واقعہ کو انتہاپسندی اور گن وائلنس سے جوڑتے ہوئے امریکیوں سے اپیل کی کہ وہ اس کی عالمی سطح پر مذمت کریں۔
انہوں نے منگل کے روز ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگاس میں سیاہ فام ووٹروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ درجہ حرارت کو کم کریں اور تشدد چاہے کسی بھی شکل میں ہو، اس کی مذمت کریں‘۔
امریکی شہری حقوق کی ایک تنظیم، ’نیشنل ایسوسی ایشن آف دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل‘ کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بائیڈن نے افریقی امریکیوں پر ہونے والے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے جارج فلائیڈ کا حوالہ دیا جنہیں 2020 میں ایک سفید فام پولیس افسر نے ہلاک کر دیا تھا۔
ہفتے کے روز پنسلوینیا میں ٹرمپ کی انتخابی ریلی میں شوٹنگ کے بعد پہلی بار بائیڈن نے گن پر سخت کنٹرول اور نیم خودکار ہتھیاروں پر امریکی پابندی کو دوبارہ نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جس کی معیاد 2004 میں ختم ہو گئی تھی۔ ٹرمپ کی ریلی پر فائرنگ سے جلسے میں شامل ایک شخص ہلاک، اور سابق صدر سمیت دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا،’ ڈونلڈ ٹرمپ پر شوٹنگ میں اے آر۔15 مشین گن استعمال کی گئی تھی۔ یہ بالکل اسی طرح کا مہلک ہتھیار تھا جس سے بچوں سمیت بہت سے دوسرے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ وقت انہیں غیر قانونی قرار دینے کا ہے۔ میں نے ایک بار ایسا کیا ہے اور میں یہ دوبارہ کروں گا‘۔
اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لیے بائیڈن کو سیاہ فاموں کی حمایت درکار ہے۔ انہوں نے افریقی امریکیوں سے متعلق کلیدی مسائل پر اپنی پالیسیوں کا سابق صدر کی پالیسیوں سے مقابلہ کیا اور ’بلیک جابز‘ کی اصطلاح کا مذاق اڑایا جسے ٹرمپ اکثر استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے نائب صدر کاملا ہیرس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ ’بلیک جاب‘ کیا ہے۔ یہ امریکہ کے نائب صدر کی جاب ہے‘۔ کاملا ہیرس نومبر کے صدارتی انتخابات میں نائب صدر کے عہدے کے لیے بائیڈن کی ساتھی ہیں اور وہ سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی امریکی ہیں۔
انہوں نے اسی روز ’بلیک انٹرٹینمٹ ٹیلی وژن‘ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں اپنے اس پیغام کو پھیلایا۔
بدھ کے روز وہ ملک کی ہسپانوی آبادی کے شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ’یونیڈاس یو ایس‘ سے خطاب کریں گے۔ ہسپانوی آبادی کا ووٹ پارٹی کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور یہ اس کا ایک اہم ووٹنگ بلاک ہے جسے وہ جیتنے کی کوشش کریں گے۔
بائیڈن کے لیے مسائل میں مزید اضافہ
شکاگو یونیورسٹی کے ہیرس اسکول آف پبلک پالیسی میں امریکی سیاسیات کے سڈنی اسٹین پروفیسر ولیم ہاویل کہتے ہیں کہ صدر کی گزشتہ ماہ صدارتی مباحثے میں کمزور کارکردگی نے ان کی عمر اور ذہنی صحت کے متعلق سوالات کو جنم دیا ہے اور ان کے صدارتی حریف پر قاتلانہ حملے نے پیچیدگیوں کی ایک اور پرت کا اضافہ کر دیا ہے۔
ہاویل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کو اپنے مخالف سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ، جو اپنی بالادستی کے لمحے کا لطف اٹھا رہے ہیں، صدارتی عہدے کے لیے اپنی فٹنس سے متعلق خدشات کو دور کرنا چاہیے۔
ہاویل کا مزید کہناتھا کہ ٹرمپ کو، جنہیں اس ہفتے ریپبلکن نیشنل کنونشن میں ان کی پارٹی کی طرف سے باضابطہ طور پر نامزد امیدوار کے طور پر منتخب کر لیا گیا ہے، ریپبلکنز کی جانب سے بہت زیادہ توقیرمل رہی ہے۔
ہاول کا کہنا تھا کہ، ’وہ صرف ایک ہیرو کے طور سامنے نہیں آئے بلکہ ایسا ہے کہ انہیں خدا نے چنا ہے اور جیسے خدا نے خود انہیں اپنی پارٹی کی قیادت کے لیے بلایا ہے‘۔
’ ایک ایسے وقت میں بائیڈن کو صدر کے کردار میں لازمی طور پر اتحاد کے مطالبوں کی قیادت اور تشدد کی مذمت کرنی چاہیے‘۔
ہاول کا کہنا تھا کہ، ’ کسی بھی شخص کے لیے ان تینوں چیزوں کو بیک وقت سرانجام دینا انتہائی مشکل ہے اور ایک ایسے صدر کے لیے تو اور بھی زیادہ مشکل ہے جو پرجوش خطابت کی صلاحیتوں کے حوالے سے اپنی پہچان نہیں رکھتے اور جنہیں اپنی پارٹی کے اندر بھی کسی قسم کی پرجوش اپیل کا لطف اٹھانے کا موقع نہیں ملا۔
منگل کے روز بائیڈن نے ملک میں جاری پرجوش سیاسی بیان بازی میں نرمی اور ٹہراؤ لانے کی اپنی اپیل کو دہرایا۔ انہوں نے یہ پیغام ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی کوشش کے اقدام کے بعد 24 گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں تین بار دیا ہے۔
بائیڈن کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں سچ بتانا چھوڑ دینا چاہیے‘۔
یہ اس جانب اشارہ تھا کہ وہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے خلاف اپنے حملے جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بائیڈن کی انتخابی مہم نے صدارتی امیدوار کے طور پر ان کی پوزیشن مستحکم کرنے اور ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد رائے عامہ کے جائزوں میں اپنے گرتے ہوئے نمبروں کو سنبھالا دینے کی کوشش میں ریپبلکن پارٹی کے نامزد امیدوار ٹرمپ پر اپنی تنقید سخت کر دی ہے۔
سردست صدر بائیڈن رائے عامہ کے جائزوں میں قومی سطح پر اور نواڈا سمیت متعدد ان ریاستوں میں، ٹرمپ سے پیچھے ہیں، جن کا جھکاؤ کسی بھی امیدوار کی جانب پلٹ سکتا ہے۔
کانگریس کے کم ازکم 20 ڈیموکریٹس اور اپنی پارٹی کے اندر موجود دیگر افراد کی طرف سے الیکشن سے دستبرداری کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے بائیڈن مسلسل یہ اصرار کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے وہ سب سے بہتر پوزیشن رکھے والے ڈیموکریٹ ہیں۔
دوسری جانب اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے ٹرمپ نے بھی قوم سے اتحاد و اتفاق کے ساتھ کھڑے ہوئے کی اپیل کی ہے۔ ٹرمپ نے ایک اخبار واشنگٹن ایگزامینر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اتحاد و ہم آہنگی پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے کنونشن کے لیے اپنی تقریر کو دوبارہ لکھا ہے۔
یونیورسٹی آف پنسلوینیا میں ’سینٹر فار ایتھکس اینڈ رول آف لاء‘ کی ڈائریکٹر کلیئر فنکلسٹین کا کہنا ہے کہ، ’ ہر کوئی یکجہتی کی بات کر رہا ہے، حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی‘۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ،’ بلاشبہ اتحاد کے بارے میں ان کا وژن یہ ہے کہ ملک کو ان کے پیچھے متحد ہونا چاہیے‘۔
فائیو تھرٹی نے رائے عامہ کے مختلف تازہ ترین جائزوں کا اوسط مرتب کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیواڈا میں ٹرمپ کو 4.7 فی صد سے برتری حاصل ہے۔
(اتعاون، کم لیوس، وی او اے نیوز)
فورم