رسائی کے لنکس

بھارتی وزیرِ داخلہ کے بیان پر بنگلہ دیش برہم، تعلقات میں مزید سردمہری کا اندیشہ


  • بھارتی وزیرِ داخلہ کے بنگلہ دیش سے متعلق بیان پر دونوں ملکوں کے درمیان سردمہری کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
  • بنگلہ دیش نے ڈھاکہ میں تعینات بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کیا ہے۔
  • کسی دوسرے ملک کے شہریوں کا معاملہ ہو یا اپنے ملک کے شہریوں کا، اس قسم کی نازیبا زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے: تجزیہ کار آنند کے سہائے

نئی دہلی -- بنگلہ دیش کی حکومت نے بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ کے بنگلہ دیش سے متعلق ایک بیان پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ایسے بیانات سے بچنے کا مشورہ دیا ہے جو سفارتی تعلقات کے لیے نقصان دہ ہوں۔

ڈھاکہ میں تعینات بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر پون بادھے کو پیر کو بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے دفتر میں طلب کیا گیا اور انھیں ایک احتجاجی نوٹ دیا گیا۔

بھارتی حکومت کی جانب سے تاحال بنگلہ دیش کے اس اقدام پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

بنگلہ دیش کے مطابق وزارت خارجہ نے اس احتجاجی نوٹ کے ذریعے اپنے تحفظات اور شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سیاسی رہنماؤں کو اس طرح کے قابل اعتراض اور ناقابل قبول بیانات سے باز رہنے کا مشورہ دے۔

احتجاجی نوٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایک ہمسایہ ملک کے شہریوں کے خلاف ذمہ دار عہدوں پر فائز افراد کے ایسے بیانات دو دوست ممالک کے درمیان باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے جذبے کو مجروح کرتے ہیں۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق بنگلہ دیش بھارت کے حوالے سے اپنا مثبت رویہ جاری رکھے گا۔ اس نے نئی دہلی سے کہا کہ وہ ذمہ دارانہ رویہ اپنائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ سیاسی بیان بازیاں دو ملکوں کے درمیان بداعتمادی پیدا نہ کریں۔

امت شاہ نے کیا بیان دیا تھا؟

یاد رہے کہ امت شاہ نے گزشتہ جمعے کو جھارکھنڈ کے شِب گنج میں منعقدہ ایک ریلی میں تقریر کرتے ہوئے مبینہ دراندازی کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر بنگلہ دیشی دراندازوں کو نہیں روکا گیا تو وہ 30-25 سال میں اکثریت میں آ جائیں گے۔

انھوں نے ریاستی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات کے حوالے سے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ’اگر ریاست میں ’بھارتیہ جنتا پارئی‘ (بی جے پی) برسرِاقتدار آتی ہے تو سبق سکھانے کے لیے بنگلہ دیشی دراندازوں کو الٹا لٹکا دیا جائے گا۔‘

ان کے مطابق ’یہاں دراندازوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ یہاں گھس پیٹھ کرتے ہیں، ہماری بیٹیوں سے شادی کرتے ہیں، زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں اور جھارکھنڈ کے ثقافتی ورثے کو تباہ کرتے ہیں۔

اسی کے ساتھ انھوں نے ریاست میں برسرِاقتدار جماعت ’جھا-رکھنڈ مکتی مورچہ‘ (جے ایم ایم)، کانگریس اور دیگر غیر بی جے پی پارٹیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ووٹ بینک کی سیاست کی خاطر دراندازی کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس قسم کے بیانات سیاسی فائدے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر معاملہ کسی دوسرے ملک سے متعلق ہو تو سیاست دانوں کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ان کا باہمی تعلقات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

'نازیبا زبان کا استعمال درست نہیں ہے'

سینئر تجزیہ کار اور صحافی آنند کے سہائے کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے ملک کے شہریوں کا معاملہ ہو یا اپنے ملک کے شہریوں کا، اس قسم کی نازیبا زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ بھارت جیسے بڑے ملک کا وزیرِ داخلہ اس قسم کی گفتگو کرے تو وہ بہت افسوسناک ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ صرف امت شاہ ہی نہیں بلکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی ایسی ہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں تمام مسلمانوں کو 'گھس پیٹھیا' یعنی درانداز کہہ دیا تھا۔

یاد رہے کہ اس بارے میں حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ وہ کسی مخصوص مذہب کے لوگوں کے خلاف بیان کے حق میں نہیں ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ انھوں نے مسلمانوں کو درانداز نہیں کہا ہے۔

آنند کے سہائے بعض دیگر تجزیہ کاروں کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ بی جے پی رہنما ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت اس پالیسی سے متفق نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی حکومت ایک عبوری اور غیر منتخب حکومت ہے۔ اس کو میں بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن امت شاہ کے ایسے بیانات سے بنگلہ دیش کے عوام کو تکلیف پہنچتی ہو گی، ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

واضح رہے کہ محمد یونس نے ستمبر میں ایک انٹرویو میں شیخ حسینہ کے ایک بیان پر سخت اعتراض کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ جب تک بنگلہ دیش ان کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کرتا، اگر بھارت ان کو اپنے یہاں رکھنا چاہتا ہے تو رکھ سکتا ہے۔ لیکن اس دوران شیخ حسینہ کو خاموش رہنا ہو گا۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ محمد یونس کا یہ بیان جہاں شیخ حسینہ کے لیے پیغام تھا وہیں بھارت کے لیے بھی تھا۔ ایک طرح سے انھوں نے بھارت سے بھی کہا تھا کہ بہتر ہو گا کہ وہ شیخ حسینہ کو خاموش رہنے کا کہے۔

انھوں نے بھارت اور بنگلہ دیش کے رشتوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ کمتر سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ دونوں کو انھیں بحال کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان مخصوص معاہدوں اور راہداری اور اڈانی الیکٹری سٹی معاہدے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ کاغذ پر کیا ہے اور زمینی سچائی کیا ہے۔ اگر نظرِ ثانی کی ضرورت ہوئی تو ہم ان معاہدوں پر ضرور سوال اٹھائیں گے۔

قبل ازیں ستمبر 2018 میں بھی امت شاہ نے مبینہ بنگلہ دیشی دراندازوں کے سلسلے میں متنازع تقریر کی تھی جس پر تنازع پیدا ہوا تھا۔

انھوں نے اپنی متعدد تقریروں میں کہا تھا کہ لاکھوں درانداز بھارت میں دیمک کی طرح گھس آئے ہیں۔ ایک ایک کو نکال باہر کرنا ہے۔ اس وقت امت شاہ بی جے پی کے صدر تھے۔

اس وقت کے بنگلہ دیش کے وزیرِ اطلاعات حسین الحق نے ان کے بیان پر اظہارِ افسوس کیا تھا۔ تاہم چوں کہ وہ بیان بھارت کا سرکاری بیان نہیں تھا۔ اس لیے بھارت سے احتجاج نہیں کیا گیا تھا۔

اس وقت انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے امت شاہ کے بیان کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بیان پریشان کن ہے۔

امت شاہ نے اپریل 2019 میں بھی بنگلہ دیشی دراندازی کا الزام عاید کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کو چن چن کر نکالا جائے گا۔

آنند کے سہائے مطابق بھارت کو متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت شاہ کے بیان سے بنگلہ دیش کے عوام کو تکلیف پہنچی ہو گی جو کہ مناسب نہیں ہے۔ حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کو اس قسم کے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG