|
"ہم نے پولیو ورکرز کے ساتھ بنا کر رکھی ہوئی ہے۔ ہم انہیں گھر بلا کر چائے پلاتے ہیں اور خدمت کرتے ہیں جس کے بدلے میں وہ قطرے پلائے بغیر بچے کی انگلی پر نشان لگا کر چلے جاتے ہیں۔"
یہ کہنا ہے کوئٹہ کے رہائشی (فرضی نام) عبداللہ کا جو بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں جن میں سے دو بچے پانچ سال سے کم عمر کے ہیں۔
پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے کوآرڈینیٹر انعام الحق والدین اور پولیو ویکسینیٹرز کے گٹھ جوڑ کی تصدیق کرتے ہیں۔
فیک فنگر مارکنگ سے مراد یہ ہے کہ پولیو ویکسینیٹر پولیو کے قطرے پلائے بغیر بچوں کی انگلیوں کو مارک کر کے قطرے پلائے جانے کی رپورٹ پیش کر دیتے ہیں۔
والدین پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری کیوں ہیں؟
عبداللہ پولیو کے قطروں کو مغربی سازش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے ان کے بچے وقت سے پہلے بالغ ہو جاتے ہیں۔"
ایسی باتوں پر صرف عبداللہ ہی یقین نہیں رکھتے بلکہ بلوچستان میں ہزاروں والدین پولیو کے قطرے پلانے سے صاف انکاری ہیں۔
پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے اعدادو شمار میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بلوچستان میں رواں ماہ ہونے والی انسدادِ پولیو مہم میں 26 ہزار والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا۔
بعد ازاں پولیو ٹیموں کی کوششوں کے بعد یہ تعداد کم ہو کر 4800 رہ گئی ہے۔ ایسے کیسز کی سب سے بڑی تعداد کوئٹہ اور چمن سے سامنے آئی ہے۔
چمن کے ایک رہائشی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر طنز و مزاح کی ویڈیوز میں اکثر پولیو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
وہ اپنی ویڈیوز میں کہتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانے سے بچے وقت سے پہلے بالغ ہو جاتے ہیں، ان کی اس ویڈیو کو 18 ہزار صارفین نے دیکھا۔ مذکورہ شخص کی انٹرنیٹ پر ایسی کئی ویڈیوز وائرل ہیں۔
ماہرینِ صحت ان افواہوں کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے ہوئے مستقل معذوری سے بچانے کے لیے پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے پولیو کے قطرے لازمی قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو کے قطرے نہ پلانے کی صورت میں بچوں کی جان بھی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب علمائے کرام پولیو کے قطروں کو حلال اور جائز قرار دیتے ہیں۔
یہ صورتِ حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب رواں برس 66 فی صد پولیو کے کیسز بلوچستان سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
رواں برس پاکستان بھر سے 21 پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 14 کیسز بلوچستان سے سامنے آئے ہیں۔ یہ کل کیسز کا 66 فی صد بنتے ہیں۔
بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے دو جب کہ قلعہ عبداللہ سے سب سے زیادہ چھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
حکام نے بلوچستان کے 20 اضلاع میں پولیو وائرس کی تصدیق کی ہے اور ان اضلاع کو ہائی رسک قرار دیا ہے۔ ماہرین صحت کو خدشہ ہے کہ اگر فیک مارکنگ کو نہیں روکا گیا تو پولیو کے کیسز مزید بڑھ سکتے ہیں۔
پولیو ویکسینیٹر اور والدین کا گٹھ جوڑ کیسے بنتا ہے؟
پولیو پروگرام کے ایک سینئر مانیٹرنگ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیو ویکسینیٹر اسی علاقے میں ڈیوٹی کرتے ہیں جس علاقے کا وہ رہائشی ہوتا ہے۔
اُن کے بقول محلے میں جان پہچان کی وجہ سے پولیو ٹیموں کو محلے اور قبائل کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پولیو ویکسینیٹر قطرے پلائے بغیر بچوں کی انگلیوں کو مارک کر دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے لوگوں میں آگاہی کی کمی اور پروپیگنڈے کی وجہ سے والدین بچوں کو قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔ ویکسینیشن ٹیم خود کو کسی مسئلے میں نہیں ڈالنا چاہتی جس کی وجہ سے فیک مارکنگ ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر آفتاب بتاتے ہیں کہ پولیو جان لیوا مرض ہے، رواں برس صوبے سے رپورٹ ہونے والے 14 پولیو کے کیسز میں سے تین بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب کے مطابق یہ بھی رپورٹس سامنے آئیں کہ والدین اپنے بچوں کو چھپا لیتے ہیں تاکہ پولیو کے قطرے نہ پلوانے پڑیں۔
'بیٹے کو سات ماہ تک پولیو ٹیموں سے چھپائے رکھا'
کوئٹہ کے علاقے قادر آباد کے رہائشی جلیل صالح کے دو سالہ بیٹے میں رواں ماہ پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
انہوں نے اپنے تین بچوں کو تو انسدادِ پولیو کے قطرے پلوائے مگر اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو سات ماہ تک پولیو ٹیموں سے چھپائے رکھا۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے کی پیدائش بھی خفیہ رکھی۔
جلیل کہتے ہیں کہ چند روز قبل بیٹے کو اچانک بخار ہوا تو اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ رپورٹس ٹھیک آئیں مگر اگلے ہی روز اس کا ایک پاؤں مڑ گیا۔ بعد میں پولیو ٹیم نے ٹیسٹ کیے تو پتا چلا کہ اسے پولیو ہو گیا ہے۔
بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہونے کے ساتھ ساتھ شورش زدہ بھی رہا ہے، ماضی میں عسکریت پسندوں کی جانب سے پولیو ٹیموں پر حملے بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں، ان حملوں نے بھی پولیو مہم کو متاثر کیا۔
پولیو کیسز میں اضافے پر حکام کا مؤقف کیا ہے؟
پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے کو آرڈینیٹر انعام الحق کہتے ہیں کہ رواں ماہ انسدادِ پولیو مہم میں 26 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔
ان کے مطابق فیک فنگر مارکنگ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہے۔ فیک مارکنگ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ"ہمارے پاس خواتین پولیو ورکرز کی تعداد کم ہے، بلوچستان کا رقبہ بڑا ہے اور اکثر دور دراز علاقوں میں مرد ویکسینیٹر خدمات سر انجام دیتے ہیں جو قبائلی معاشرے کے سبب کسی گھر کے اندر جا کر ویکسینیشن نہیں کرا سکتے۔"
انعام الحق بتاتے ہیں کہ جہاں کہیں فیک مارکنگ کا اندیشہ ہو تو وہاں معمول سے ہٹ کر ڈائریکٹ ویکسینیشن کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں میں پولیو سے متعلق شکوک و شبہات کو ختم کرنے کے لیے علمائے کرام کی مدد لی جا رہی ہے، اس ضمن میں ضلعی انتظامیہ اور پولیو ٹیموں کی تربیت کے لیے ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔
فورم