احمد آباد کی خصوصی عدالت نے 2002ء کے فسادات کے دوران نرودا پاٹیا میں 97افراد کے بہیمانہ قتل کے معاملے میں سزاؤں کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق، بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر، رکنِ اسمبلی اور سابق وزیر مایا کوڈنانی کو 28سال کی قید اور وشو ہندو پرشاد کے لیڈر بابو بجرنگی کو تاحیات قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
کوڈنانی پہلی خاتون، پہلی سابق وزیر اور پہلی رکنِ اسمبلی ہیں جِن کو گجرات فسادات کے کسی معاملے میں سزا سنائی گئی ہے۔
اُنھیں تعزیراتِ ہند کی دفعہ 120-B,مجرمانہ سازش، 302قتل اور 307اقدام قتل کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔
متاثرین کے وکیل شمشاد پٹھان نے میڈیا نمائندوں کے ہجوم میں فیصلےکی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ میں پہلی بار ایسی سخت سزائیں سنائی گئی ہیں۔
اُنھوں نے خصوصی عدالت کی جج کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے 28فروری 2002ء کے واقعات کا سخت الفاظ میں نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے۔
شمشاد پٹھان نے مزید کہا کہ دیگر مجرموں کو بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ فرقہ وارانہ فسادات کسی بھی جمہوری ملک میں کینسر کی مانند ہیں، اور اُن کے خلاف ہر حال میں سخت کارروائی ہونی چاہیئے۔
عدالت نے مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ عوامی راہنما ہیں اور راہنماؤں سے اس قسم کی وارداتوں کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
28فروری 2002ء کو نرودا پاٹیا میں 97مسلمانوں کا قتل کیا گیا تھا۔
اِن دونوں مجرمان نے بلوؤں کی قیادت کی تھی اور اُن میں ہتھیار تقسیم کیے تھے۔
عدالت نے کہا کہ اِن مجرموں کو سزائے موت ہی دی جانی چاہیئے تھی، لیکن چونکہ اِس وقت پوری دنیا میں سزائے موت کے خلاف ایک بحث چل رہی ہے، لہٰذا اِنھیں موت کی سزا نہیں سنائی گئی۔ البتہ، بجرنگی کو اُس وقت تک جیل میں رکھا جائے جب تک کہ اُن کی قدرتی موت نہ ہوجائے۔
مایا کوڈنانی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے قریبی ہیں اِس لیے اِس فیصلے کو مودی حکومت کے لیے دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔
کانگریس کے لیڈر ڈگویجیو سنگھ کے فیصلے کے بعد کہا کہ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ فسادات میں بی جے پی کے وزیر اور عہدیداران ملوث رہے ہیں اور سب کچھ مودی کے اشارے پر ہوا تھا، جب کہ بی جے پی نے فیصلے کو مودی حکومت کے لیے دھچکہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
کوڈنانی پہلی خاتون، پہلی سابق وزیر اور پہلی رکنِ اسمبلی ہیں جِن کو گجرات فسادات کے کسی معاملے میں سزا سنائی گئی ہے۔
اُنھیں تعزیراتِ ہند کی دفعہ 120-B,مجرمانہ سازش، 302قتل اور 307اقدام قتل کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔
متاثرین کے وکیل شمشاد پٹھان نے میڈیا نمائندوں کے ہجوم میں فیصلےکی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ میں پہلی بار ایسی سخت سزائیں سنائی گئی ہیں۔
اُنھوں نے خصوصی عدالت کی جج کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے 28فروری 2002ء کے واقعات کا سخت الفاظ میں نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے۔
شمشاد پٹھان نے مزید کہا کہ دیگر مجرموں کو بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ فرقہ وارانہ فسادات کسی بھی جمہوری ملک میں کینسر کی مانند ہیں، اور اُن کے خلاف ہر حال میں سخت کارروائی ہونی چاہیئے۔
عدالت نے مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ عوامی راہنما ہیں اور راہنماؤں سے اس قسم کی وارداتوں کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
28فروری 2002ء کو نرودا پاٹیا میں 97مسلمانوں کا قتل کیا گیا تھا۔
اِن دونوں مجرمان نے بلوؤں کی قیادت کی تھی اور اُن میں ہتھیار تقسیم کیے تھے۔
عدالت نے کہا کہ اِن مجرموں کو سزائے موت ہی دی جانی چاہیئے تھی، لیکن چونکہ اِس وقت پوری دنیا میں سزائے موت کے خلاف ایک بحث چل رہی ہے، لہٰذا اِنھیں موت کی سزا نہیں سنائی گئی۔ البتہ، بجرنگی کو اُس وقت تک جیل میں رکھا جائے جب تک کہ اُن کی قدرتی موت نہ ہوجائے۔
مایا کوڈنانی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے قریبی ہیں اِس لیے اِس فیصلے کو مودی حکومت کے لیے دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔
کانگریس کے لیڈر ڈگویجیو سنگھ کے فیصلے کے بعد کہا کہ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ فسادات میں بی جے پی کے وزیر اور عہدیداران ملوث رہے ہیں اور سب کچھ مودی کے اشارے پر ہوا تھا، جب کہ بی جے پی نے فیصلے کو مودی حکومت کے لیے دھچکہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔