رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں الیکشن کا مرکزی مدعا: آرٹیکل 370 اور 35 اے


سال 2017 میں جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے خبردار کیا تھا کہ ’’اگر جموں کشمیر کے باشندوں کو ملنے والی مراعات میں کسی طرح کی تبدیلی کی گئی تو ریاست میں ’ترنگے‘ (بھارتی پرچم) کو تھامنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘

محبوبہ مفتی آرٹیکل 35 اےکی بات کر رہی تھیں،جو آرٹیکل 370 کا حصہ ہے۔ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل ہے۔ آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے۔

اس وقت بھارت کے 2019 کے الیکشن سے پہلے، آرٹیکل 370 ایک بار پھر بھارتی زیر انتظام کشمیر میں اس وقت احتجاج، مباحثوں اور تنازعے کی وجہ بن گیا جب بی جے پی نے اس کے خاتمے کے وعدے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا۔ اس ہفتے وائس آف امریکہ کی راؤنڈ ٹیبل میں ہم نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں اور تجزیہ کاروں سے اس بارے میں بات کی ہے۔

’جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس‘ کی ترجمان، سارہ حیات شاہ نے کہا ہے کہ جب جموں و کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا تو وہ انہی آئینی ضمانتوں کے ساتھ مشروط تھا۔ لیکن، بقول انکے، ’’آج ہمیں مرکز میں بی جے پی کی حکومت کی جانب سے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ آج پورے ملک میں اس بات پر انتخابی مہم چلتی ہے کہ 35 اےکو ہٹا دیں گے، 370 کو ہٹادیں گے۔ لیکن، اگر ان کو ہٹا دیا جائے تو یونین آف انڈیا کے ساتھ ہمارا جو رشتہ ہے وہ بھی باقی نہیں رہتا‘‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’اب بات یہاں تک آگئی کہ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ آپ بی جے پی کو ووٹ دیں، تاکہ ہم جموں و کشمیر سے 35 اے اور 370 کو ہٹا دیں۔ اور اسی لئے ہم لوگوں سے کہ رہے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ ووٹ دے کر اس خصوصی پوزیشن کو بچانا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی لیڈر ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے ،ان شقوں کو ختم کر دینے کے اپنی پارٹی کے انتخابی وعدوں کا بہت زیادہ دفاع نہیں کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک تحفے کے طور پر ہمیں بھارت نے دیا تھا۔ پھر جب یہاں ’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ کی حکومت بنی تب اس کے بارے میں قانون لایا گیا تھا– اب جب کہ بی جے پی نے یہ چیز اپنے مینی فیسٹو میں شامل کی ہے، جو پچھلی بار بھی شامل تھی، اور امیت شاہ نے 2020 تک اسے ختم کرنے کی بات کی ہے، تو اگرچہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہوں، لیکن ہمیں جموں اور کشمیر کے بارے میں سوچنا ہے۔ اس کے ایک اسپیشل اسٹیٹس کے بارے میں سوچنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسا اسٹیٹس ایک بار دیے جانے کے بعد اسے واپس لینا مشکل ہوتا ہے۔ اور اس سے حالات خراب ہوجائیں گے، کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ساری پارٹیاں (اس کے خلاف) متحد ہوگئی ہیں ’’اور، مجھے نہیں لگتا کہ ہماری پارٹی کو ایسا کرنا چاہئے۔‘‘

’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ کے وحید الرحمان نے کہا کہ 35 اے ہمیں اس خطے کی ڈیمو گرافی میں تبدیلی نہ کرنے کی آئینی ضمانت دیتا ہے۔ یہ علاقہ ایک متنازعہ حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کوئی بین الاقوامی سرحد نہں ہے اور کوئی بھی مسائل طے نہیں ہوئے ہیں۔ اس لئے عیاں طور پر ہماری آئینی حیثیت برقرار رہنی چاہئے۔ کئی بار کانگریس اور بی جے پی کی حکومتوں نے اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ بقول انکے’’یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بھارت کے الیکشن میں کشمیر اتنا بڑا مدعا بن گیا ہے۔‘‘

’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا‘ کے اس ریاست کے سیکریٹری، غلام نبی ملک کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی ایک سیکولر مؤقف رکھتی ہے۔ اور ڈیموکریٹک اور لبرل فورسز کی کوشش یہی ہے کہ کشمیر کے تینوں علاقے اکھٹے رہیں۔ پچھلے تین برسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں، ہندؤں اور بدھوں کو لڑانے کی کوشش کی ہے اور 35 اے کو صرف مسلمانوں کا معاملہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے؛ جبکہ یہ تمام کشمیریوں کے موروثی حقوق کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔

معروف تجزیہ کار پروفیسر حمیدہ نعیم اس خصوصی اسٹیٹس کو بچانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ہماری سیاسی پارٹیوں نے ایک مدعا بنایا ہے جو 35 اے کو بچانے کا ہے،حالانکہ ہندوستان نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا۔‘‘

بقول اُن کے، ’’جب انہوں نے چالاکی سے الحاق کروایا تھا اس وقت انہوں نے ہم سے اختیار لیا تھا، دیا نہیں تھا۔ ہم نے اس کے عوض پروٹیکشن مانگی تھی اپنے موروثی قوانین کے لئے جو مہاراجہ نے 1927 میں بنائے تھے۔ اس لئے یہ زبان ہی غلط ہے کہ ہم اسپیشل اسٹیٹس کو پروٹیکٹ کریں گے۔‘‘

XS
SM
MD
LG