|
بھارت کی ریاست تمل ناڈو کے شہر چنئی کے مضافات میں 'کوکا کولا' کی ایک فیکٹری میں بہت بڑی بیٹریوں کے ذریعے مشینیوں کو دن رات چلایا جا رہا ہے۔
اس فیکٹری میں یہ مشینیں ڈیزل سے چلنے والے جنریٹر کے متبادل کے طور پر استعمال کی جا رہی ہیں۔
یہ فیکٹری بھارت کے ان چند کارخانوں میں شامل ہے جہاں بجلی کی اسٹوریج کے لیے بیٹریاں نصب کی گئی ہیں۔
اس اقدام کا مقصد ملک کے توانائی کے ماحول دوست ذرائع کی جانب تیزی سے بڑھنا اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بنے والے توانائی کے ذرائع کا استعمال ترک کرنا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق بھارت میں لیتھیم آئیون والی بیٹریاں بنانے والے صنعت عالمی صنعت کے مقابلے میں صرف 0.1 فی صد ہی ہے۔
ان لیتھیم بیٹریوں میں شمسی توانائی اور ہوا سے چلنے والی ٹربائن سے پیدا ہونے والی بجلی کی اسٹوریج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
بھارت میں اب تیزی سے لیتھیم بیٹریوں کی صنعت فروغ پا رہی ہے اور بیٹریاں بنانے کا ایک تہائی بنیادی ڈھانچہ صرف اس ایک سال میں فعال ہوا ہے۔
چنئی میں فیکٹری میں بیٹریاں نصب کرنے والی کمپنی ائمپیرآور کے سی ای او ایوش مشرا کہتے ہیں کہ بیٹریوں کے لیے آرڈرز میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
بھارت میں ماحول دوست توانائی کے حصول کے ذرائع میں پن بجلی سے 3.3 گیگا واٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے جب کہ اب بیٹریوں میں محفوظ کر کے استعمال کی جانے والی بجلی 100 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔
بھارت کی حکومت کا اندازہ ہے کہ 2032 تک ملک بھر میں بیٹریوں، ہائیڈرو پاور اور جوہری توانائی سے لگ بھگ 74 گیگاواٹ بجلی درکار ہوگی۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھارت کو اس سے دگنا بجلی کی ضرورت ہوگی۔
ملک میں اب بھی صارفین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو کہ بجلی کی اسٹوریج کے لیے بیٹریوں کی ٹیکنالوجی کے استعمال میں ہچکچا رہی ہے اور اسٹوریج کے اس نظام کو کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے مقابلے میں مہنگا کہا جاتا ہے۔
اسی طرح ملک میں بیٹریوں کی سپلائی برقرار رکھنے کے لیے چین پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خطے کی سیاسی صورتِ حال بھی بیٹریوں کی دستیابی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
بیٹریوں کے کاروبار سے وابستہ حلقوں کا خیال ہے صارفین زیادہ عرصے تک اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں رہیں گے۔ کئی بڑے کاروبار بھی اس صنعت میں سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے ہیں۔
رواں برس جنوری میں ریلائنس انڈسٹریز نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ بھارتی ریاست گجرات کے شہر جام نگر میں پانچ ہزار ایکڑ پر فیکٹری قائم کر رہی ہے۔
بعد ازاں مارچ میں ’گڈ انف انرجی‘ نے کہا کہ وہ جموں کشمیر کے شمالی علاقے میں پانچ کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری سے 2027 تک دو کروڑ کلو واٹ (لگ بھگ 20 ہزار میگاواٹ) کی بیٹری فیکٹری قائم کرے گی۔
بنگلورو میں مقیم توانائی کے حوالے سے مبصر الیگزنڈر ہوگوین روٹر کہتے ہیں کہ قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع بڑھنے کے ساتھ ساتھ اسٹوریج کی استعداد بھی بڑھانی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے صاف ذرائع کے ساتھ ساتھ اس کی اسٹوریج ہونے سے یہ کوئلے سے بجلی کے حصول کے متبادل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے توانائی کے ماحول دوست ذرائع کو کوئلے کے مقابلے میں مہنگا قرار دینے کو مفروضہ قرار دیا۔ ان کے بقول اس وقت توانائی کے متبادل ذرائع اور اس کی اسٹوریج کوئلے کے مقابلے میں سستی بجلی فراہم کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر بیٹریوں کی قیمتوں میں توقع سے بھی زیادہ تیزی سے کمی آ رہی ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بیٹریوں کی قیمتوں میں کمی کا رجحان برقرار رہا تو یہ نظام صاف توانائی کے دیگر ذرائع جیسے ہائیڈرو پاور اور جوہری بجلی سے مسابقت کے دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں شام کے اوقات میں بجلی کی طلب سب سے زیادہ ہوتی ہے اور صارفین کی اس طلب کو پورا کرنے کا بڑا ذریعہ بیٹری اسٹوریج ہی ہے جو گیس، جوہری توانائی اور کوئلے سے بجلی کی پیداوار سے زائد ہے۔
ان کے بقول اسی طرح برطانیہ، چین اور دیگر چھوٹے ممالک جیسے ٹونگا میں بھی اسی طرح کے اقدامات ہو رہے ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کا استعمال اب بھارت میں نہ ہو سکے۔
بھارت میں توانائی کی ضروریات دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کی آبادی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کو موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا ہے جس سے گرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں لوگوں کو گرمی سے بچنے اور ٹھنڈ کے حصول کے لیے زیادہ توانائی یا بجلی درکار ہے۔
بھارت میں بجلی کی طلب میں گزشتہ ایک برس میں سات فی صد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ بھارت میں بجلی کی سالانہ طلب مستقبل میں بھی تین برس تک چھ فی صد رہنے کا امکان ہے۔
بھارت کی حکومت بھی بیٹریوں کو توانائی کی اسٹوریج کے لیے استعمال کرنے کی صنعت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ حکومت نے 45 کروڑ ڈالر کی ایک اسکیم کا اعلان کیا ہے جس سے چار گیگا واٹ بجلی اسٹوریج کا نظام 2031 تک بنایا جا سکے۔ لیکن حکومت کمپنیوں کو سبسڈی پر کوئلہ بھی فراہم کر رہی ہے جس سے وہ سستی بجلی بنا رہی ہیں۔ مسقتبل میں ممکن ہے مسابقت کی فضا قائم ہو جائے۔
اس رپورٹ میں معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے شامل کی گئی ہیں۔