|
عراقی حکام نے پیر کے روز 10 افراد کو "دہشت گردی" کے جرم میں پھانسی دے دی۔ یہ بات سیکورٹی اور صحت کے ذرائع نے اے ایف پی کو بتائی ہے۔
عدالتوں نے حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے مرتکب سینکڑوں عراقیوں کو ایسے مقدموں میں موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی ہیں جن کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے عجلت پر مبنی قرار دے کر ان کی مذمت کی ہے۔
عراقی قانون کے تحت دہشت گردی اور قتل کے جرائم کی سزا موت ہے اور پھانسی کے حکمنامے پر صدر کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔
صحت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ 10 عراقیوں کو "دہشت گردی کے جرائم کے ارتکاب اور داعش کا رکن ہونے کے جرم میں جنوبی شہر ناصریہ کی الحوت جیل میں پھانسی دی گئی ۔ "
ایک سیکورٹی کے ذریعے نے پھانسیوں کی تصدیق کی ہے۔
محکمہ صحت کے اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں انسداد دہشت گردی کے قانون کے آرٹیکل چار کے تحت پھانسی دی گئی تھی اور محکمہ صحت نے ان کی لاشیں وصول کر لی تھیں۔
ذرائع نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
الحوت ناصریہ شہر کی ایک بدنام زمانہ جیل ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ وہاں پر قید افراد کبھی زندہ باہر نہیں نکلتے۔
سزائے موت کے مقدمات پرحقوق گروپوں کی تنقید
عراق کو ان مقدما ت کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے،جن میں "دہشت گردی" کے جرم میں سزائے موت دی جاتی ہے، قطع نظر اس کے کہ مدعا علیہ کوئی سرگرم جنگجو رہا ہو۔
عراق نے 31 مئی کو "دہشت گردی" کے مرتکب آٹھ افراد کو پھانسی دی تھی ، یہ ملک میں تیسرا گروپ تھا جسے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں موت کی سزا دی گئی تھی۔
سیکورٹی اور صحت کے ذرائع نے بتایا کہ گیارہ افراد کو 22 اپریل کو اور اس طرح کے ایک اور گروپ کو 6 مئی کو پھانسی دی گئی تھی ۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے گروپ ،ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے عراق میں حالیہ مہینوں میں پھانسیوں کے حوالے سے شفافیت میں کمی ہونےکی مذمت کی۔
ایمنسٹی کے عراقی ریسرچر رضا صالح نے کہا”عراقی حکومت کو فوری طور پر پھانسیوں کو با ضابطہ طورپر معطل کرنا چاہئیے اور سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہئیے۔”
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم