بھارتی ریاست تلنگانہ کی اسمبلی نے جمعے کو ایک قانون سازی کی منظوری دیتے ہوئے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے۔
ریاست میں اردو بولنے والے خاصے لوگ آباد ہیں، جو تمام 31 اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں۔
تلنگانہ سرکاری زبانون کا ترمیمی بل 2017ء منظور کیا گیا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔
حیدرآباد دکن سے ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ سنہ2014 میں تلنگانہ کی ریاست وجود میں آئی، اور اُس کے 10 اضلاع کو گذشتہ برس تنظیم نو کے دوران 31 میں بانٹا گیا۔
ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ریاست کی مجموعی آبادی میں اردو بولنے والی آبادی کی تعداد میں 12.69 کی شرح سے اضافہ آیا ہے۔
رُکن اسمبلی، اکبرالدین اویسی نے بِل کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پہلے اردو کے ساتھ انصاف نہیں برتا گیا۔ اس ضمن میں، اُنھوں نے اپنے والد، مرحوم صلاح الدین اویسی اور دیگر دانشوروں کی کوششوں کا ذکر کیا، جن کا مقصد زبان کا تحفظ اور ترویج ہے۔
کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے راہنما، ٹی جیون ریڈی نے قانون سازی کا خیرمقدم کیا۔ تاہم، اُنھوں نے اردو اکیڈمی سے متعلق چند معاملات کی جانب دھیان مبذول کرایا؛ جس کی معاون وزیر اعلیٰ محمود علی اور قانون سازی کے امور کے وزیر، ہریش راؤ نے وضاحت پیش کی۔
بی جے پی کے سرکردہ قائد، کشن ریڈی نے کہا کہ سنہ 1966 میں تلنگانہ کے خطے کے نو اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا۔
ہریش راؤ نے کہا کہ حزب اختلاف یہ کہنا چاہتی ہے کہ اس بل میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم، پوری ریاست کو اب ایک اکائی کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ تلنگانہ پہلی ریاست ہے جہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے، جس سے قبل دہلی نے پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی یہی درجہ دیا گیا تھا۔
کشن ریڈی نے الزام لگایا کہ حالانکہ تلگو پہلی سرکاری زبان ہے۔ لیکن، اُسے مؤثر طور پر ابھی تک سرکاری دفاتر اور انتظامی اداروں میں نافذ نہیں کیا گیا۔